Latest

6/recent/ticker-posts

Aatish By Ansa Yasmeen Khan


 I hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group.  And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.


Sneak Peek:1

آہہہ۔۔۔"وہ اپنے ہی دھیان میں آگے برھ رہی تھی کہ کسی کے ایک طرف کھینچنے پر اُسکے منہ سے چیخ بے ساختہ نکلی جسے مقابل اپنے مضبوط ہاتھ تلے روک چکا تھا 

"شششش۔۔۔ہلنا بند کرو" وہ جو بنا دیکھے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی اپنے کان میں ہوتی سر گوشی پر وہ پل میں ساکت ہوئی 

"سننے میں آیا ہے کہ مری بیوی کو مجھ سے بہت سی شکاتیں ہیں" وہ کچھ پل یوں ہیوہ دونوں ایک دوسرے کے چہرے پر نگاہیں جمائے کھڑے رہے جب شہیر زائشہ کو یوں اطمینان بھرے انداز میں خود پر نظریں جمائے کھڑا دیکھ کر کافی امپریس ہوا مگر جلد ہی وہ شہیر کے استحاق بھرے انداز کو دیکھ کر نگاہیں جھکا گئی تو وہ مسکراتے ہوئے بولا

"کک۔۔کس۔نے کہا" شہیر اُسکے منہ سے ہاتھ ہٹا چکا تھا وہ شہیر کے اس قدر قریب ہونے پر گھراہٹ چھپائے بولی

"ایک۔۔۔بہت ہی۔۔۔خوبصورت لڑکی نے" وہ اُسکے کان کے قریب جھکتے بولا تو اُسکے بولنے پر اُسکے لب زائشہ کے کان کی لُو سے ٹکراتے اُسکے جسم میں سنسناہٹ پیدا کر گئے جس پر زائشہ نے بے ساختہ شہیر کے کالر کو مٹھیوں میں دبوچا

"کیا ہوا بیوی۔۔۔اب شکایت کرو۔۔میں سامنے کھڑا ہوں" وہ ایک نظر اپنے اُسکے ہاتھوں پر ڈالتے مسکراتے ہوئے بولا تو وہ فوراً نفی میں سر ہلا گئی اُسکی حرکت پر شہیر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

" کسی کو شکایت ہے کہ میں بہت اَن رومینٹک ہوں" وہ ایک بار پھر اُسکی انداز میں بولا کہ اُسکے لب زائشہ کے کان کو چھو گئے تو زائشہ نفی میں سر ہلاتے مزید اُسکے سینے میں گھسی

" مجھے منانا بھی نہیں آتا" اس بار اُسنے اپنے لبوں سے اُسکے ان کی لُو کو دُبایا تھا

"ننن۔نہیں" وہ منمنائی

"کیا نہیں" وہ اُسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا

"آآ۔۔پپ۔۔۔"

"کیا میں؟" وہ مسکراہٹ پھاتے ہوئے اُسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے بولا

"کک۔۔کچھ نہیں" وہ آہستہ سی آواز میں بولی

" ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تمہاری آواز لاؤڈ سپیکر کو بھی مات دے رہی میرے قریب آتے ہی میوٹ کیوں ہو گئی ہو" وہ اُسکے کچھ دیر قبل تبصرے کے بارے میں کہہ رہا تھا جبکہ زائشہ تو شرم سے مرنے والی ہوگی تو گویا وہ اُسکی گوہر فشائیاں سن چکا تھا

"نیچے۔۔۔سب ویٹ کر۔۔رہے ہوں گے" وہ اُسکا دھیان بٹانے کو بولی

"تو کرنے دو" وہ فوراً سے بولا

"جانے دیں۔۔۔پلیز" وہ منت بھرے انداز میں بولی

" ایک ہفتہ اور۔۔۔۔پھر تمہاری ساری شاکتیں دور کر دوں گا۔۔آئی پرومس" وہ بات مکمل کرنے ساتھ ہی اپنے ہونٹ اُسکے ماتھے کے درمیاں رکھ چکا تھا کچھ پل دونوں ہی آنکھیں موندے ان پلوں کو محسوس کرتے رہے 

"جاؤ۔۔۔ورنہ۔۔۔قید کر لوں گا" شہیر اُسے ایک قدم کے فاصلے پر ہوتے ہوئے سرگویانہ انداز میں بولا تو زائشہ جو ابھی تک آنکھیں موندے کھڑی تھی فوراً سے آنکھیں کھولتے بھاگی تو شہیر اُسکی رفتار دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔


Sneak peek:2

"آہ۔۔۔۔" وہ جیسے ہی دروازے کو لاک لگا کر مڑی اپنے بیڈ پر پُرسکون انداز میں بیٹھے شخص کو دیکھ  کر خوف کے مارے اُسکے منہ سے چیخ نکل مگر مقابل تب بھی پُرسکون انداز میں ہی بیٹھا رہا

"آ۔۔۔آ۔۔آپ۔۔۔۔" اُسے سکون سے نیم دراز انداز میں سگریٹ پیتا دیکھ کر وہ ہلکلاتے ہوئے بولی جس پر اُسنے فقط  اس جانب دیکھا تھا کہ گویا جاننا چاہتا ہوں کہ کیا  وہ اُسے ہی مخاطب ہے

"آ۔۔۔آ۔۔آپ۔۔۔یہا۔۔ں ۔۔۔کیسے۔۔آئے" وہ اب بھی بےیقینی کی سی کیفیت میں اُسے اپنے بیڈ پر بیٹھا دیکھ رہی تھی

"کھڑکی سے" جبکہ وہ پُرسکون، لاپرواہ سے انداز میں ایسے بولا جیسے یہ کوئی معمولی سی بات ہو

"کک۔۔کیوں؟" اُسنے ہمت کرکے اگلا سوال کیا

"اپنی۔۔نہیں۔۔چھوٹی حویلی کی۔۔۔چھوٹی بیٹی سے ملنے آیا ہوں" وہ کچھ کہتے کہتے رکا پھر ایک جھٹکے سے سیدھا ہوتے ہوئے 'چھوٹی' پر کافی زور دیتے ہوئے بولا

"جج۔۔جائیں۔۔یہا۔۔ں سے" اُسے اُٹھتا دیکھ وہ ایک قدم پیچھے کو ہٹتے ہوئے بولی

"کیوں؟" وہ سوالیہ انداز میں اُسکی جانب دیکھتے ہوئے بولا سگریٹ اب بھی اُسکی انگلیوں میں سلگ رہا تھا

"کیا ملک حویلی والوں کو اپنی پرورش پر بھروسہ نہیں۔۔۔۔۔یا پھر تمہیں اپنے آپ پر" اُسنے پہلی بات عجیب تمسخرانہ سے انداز میں کہی جبکہ اُسکی دوسری بات  مقابل پر گہرا طنز تھا  جس پر اُسنے نم آنکھوں سے اُسی جانب دیکھا 

" ا۔۔اس بات۔۔سے آپ کو ۔۔مطلب نہیں ہونا چاہیے" وہ اپنے لہجے میں غصے کی آمیزش شامل کرتے ہوئے قدرے سخت انداز میں بولی تو اُسنے بھی داد دینے والے انداز میں ایزل کی جانب دیکھا جیسے اُسکی ہمت پر اُسے سہراہ  رہا ہو

"اُووو۔۔۔رئیلی اگر تم سے جوڑی باتوں سے مجھے مطلب نہیں ہوگا تو بھر کسے ہوگا" وہ ایک ہی جست میں اپنے اور اُسکے بیچ کا فاصلہ طے کرتے اُس تک پہنچا

"بولو۔۔۔" وہ اُسکی تھوڑی اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی اُنگلی اور انگوٹھے میں دُبائے اوپر کرتے ہوئے بولا

"و۔۔وہ۔۔ش۔۔شہیر۔۔لالا۔۔۔"

"اپنے بھائی سے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہو" اُسنے سگریٹ کی وجہ سے اُسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ سگریٹ کو پاؤں تلے مسلا

"نن۔۔نہیں۔۔۔وہ۔۔لا۔۔لالا۔۔حویلی۔۔۔آ۔۔آجائیں گے" وہ اُسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر بھوکھلائی سی بولی تو شارم نے لب دانتوں تلے دُباتے ہوئے اپنی مسکراہٹ روکی

" تو آ جائے اُسکی حویلی ہے میں نے کب روکا ہے اُسے" اُسنےاب ایزل حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا

"آپ ۔۔۔دور رہیں ۔۔ہم سے" اُسنےہمت کرتے اپنے دونوں ہاتھوں سے اُسکے کشادہ سینے پر زور ڈالتے ہوئے  شارم کو پیچھے کی جانب دھکیلا جسے وہ ایک قدم اپنی جگہ سے پیچھے کو ہوا مگر ایزل کی یہ حرکت اُسے غصہ دلانے کے لیے کافی تھی

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے  ایسے دور دھکیلنے کی" وہ اُسکی بازو اپنی آہنی گرفت میں لیتے ہوئے اُسے اپنے قریب تر کرتے ہوئے بولا غصے سے اُسکی آنکھیں ایک لحمے میں سرخ ہوئی تھیں

" آئندہ ایسی حرکت کی تو مجھے سے بُرا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔سمجھی" اُسنے ایزل کے بازو پر گرفت مزید سخت کی تو   ایزل کے منہ سے سسکی نکلی جسے وہ اپنے لب دبائے روک گئی مگر تکلیف اُسکے چہرے پر عیاں تھی

"سمجھی؟؟؟" وہ  اپنی بات پر  زور دیتے ہوئے بولا تو ایزل نے اثبات میں سر ہلایا

"چلو ایک بات بتاؤ" وہ نرمی سے اُسکا بازو اپنے ہاتھ سے آزاد کرتے ہوئے بولا تو  ایزل نے سوالیہ انداز میں اُسکی جانب دیکھا  

"جب تم ایسی ہو نہیں تو۔۔پھر میرے سامنے یہ ناٹک کیوں؟؟؟" وہ جانتی تھی کہ  شارم اُسکی بوکھلاہٹ اور اُسے گریز  پر چوٹ کر  رہا  مگر اُس کی آنکھوں کی نمی کی وجہ شارم کی دوسری بات تھی وہ کیوں ہر بار اُسے آنسو دے کر خود پُرسکون ہوجاتا جیسے اب تھا ایزل کی بھوری آنکھوں میں چمکتی نمی میر شازم سلطان کے لیے سکون کا باعث تھی ناجانے کیوں وہ  شازم سلطان ایزل ملک کے معامے میں قدر بے حس تھا ناجانے یہ کیسا سکون تھا جو اُسے اس نازک پری کو تکلیف دے کر ملتا ۔

Must read and give feedback ,
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.

Click Here To Download

Complete Download Link



Post a Comment

0 Comments