Latest

6/recent/ticker-posts

Shareek E Hayat Novel by Bint E Aslam

 


I hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group.  And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.

Sneak Peek:1

ایمرجنسی کے باہر وہ تمام لوگ بیٹھے ڈاکٹر کے انتظار کررہے تھے شہلا بیگم کو ذیشان کی والدہ سنبھال رہی تھی عاشر صاحب بھی سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھے ۔ایک ٹانگ فولڈ کرکے دیوار سے لگائے وہ کمرے کے باہر ڈاکٹر کا ویٹ کررہا تھا اسنے کئی بار اپنے آدمیوں کو فون کیا جو اٹھا نہیں رہے تھے اسکا میٹر حد تک شاٹ ہوا پڑا تھا ملو تم لوگ تمہارا قتل میرے ہاتھوں ہوگا !!" تھک کر وہ جاکر عاشر صاحب  کے ساتھ بیٹھ گیا ڈاکٹر باہر آئیں تو اسکے علاوہ سب ہی لپکے وہ ابھی بھی سر جھکائے بیٹھا تھا " چاقو انکے پیٹ میں بہت اندر تک دھنس گیا تھا جو ۔۔۔۔۔۔۔جو بچہ دانی کو بھی پھاڑ گیا مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکتی ! اسنے مٹھیاں بھینچ کر آنکھیں ضبط سے بند کرلیں ناچاہتے ہوئے بھی ایک آنسوں آنکھوں سے بہہ ہی نکلا وہ ضبط کرکے باہر چلا گیا ۔

کھلی ہوا میں بھی اسکا دم گھُٹ رہا تھا جب اسکے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا اسکی والدہ اسکے گلے سے لگی رونے میں مصروف تھی اور وہ بغیر کسی تاثر کے انھیں چپ کروا رہا تھا اسکا چہرا بلکل سپاٹ تھا نہ غم۔نہ غصہ نہ دکھ نہ ملال کچھ بھی نہیں " یہ کیا ہوگیا تمہارے ساتھ ذیشان کیا ہوگیا ابھی تو خوشیاں شروع بھی نہیں ہوئیں تھی !" اسنے آرام سے انکے آنسو پونچھے " میرے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا امی وہ میری منگیتر تھی بیوی نہیں جو میری بھی زندگی اسکے ساتھ برباد ہو جائے !" وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی " ذیشان یہ تم کیا کہہ رہے ہو !"

“ پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے !!! نرس کی بات سنتے  ہی وہ اپنی والدہ کو لیکر اندر آگیا اسکے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر ایک نظر اسے دیکھا جو غیر مرائی نقطے کو گھور رہی تھی دروازہ ہلکا سا کھول دیا جس سے آواز اندر جا سکے " میں کیا کہہ رہا ہوں امی  سمجھے میں کیسے ایک ایسی لڑکی سے شادی کرسکتا ہوں جو مجھے اولاد نہیں دے سکتی ! چیخنے کی آواز پر اسنے دروازے کی جانب دیکھا جہاں شیشے سے ذیشان نظر آرہا تھا ۔" ذیشان خدا کے لیے آہستہ بولو وہ سن لے گی !"

“ سنے دیں امی اسے بھی تو پتہ چلا جو الفاظ دوسرے کے لیے استعمال کیے ہوں اپنی ذات پر کیسے محسوس ہوتے ہیں اور کمی تو کمی ہوتی ہے نہ اور خامی زدہ چیز کون اپناتا ہے مرد ایک عورت لاتا ہے اپنی نسل بڑھانے کے لیے جو یہ نہیں کرسکتی میں کیا کوئی بھی مرد کرنے سے پہلے سو بار سوچے میرا اتنا بڑا ظرف نہیں میں ایک ادھوری عورت کو اپنا لوں مجھے معاف کردیں !!" ہاتھ جوڑ کر وہ انگوٹھی وہیں چئیر پر رکھ کر آگے بڑھ گیا " ایک التجا ہے تم سے ؟ عاشر صاحب کی آواز پر اسنے پلٹ کر انھیں دیکھا " پرسوں حیدر کا آپریشن ہے تب تک اگر یہ بات اسے نہ پتے چلے تو اچھا ہوگا !!" سر جھکائے نہایت ضبط سے وہ یہ الفاظ  ادا کررہا تھا ۔جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر باہر آگیا گاڑی میں بیٹھ کر ماتھا سٹئیرنگ سے ٹکا لیا یہ وہی جانتا تھا یہ الفاظ اسنے کیسے وہاں بولے ہیں کیسے خود  کو مارا تھا اسے یہ احساس دلاتے کہ مکافاتِ عمل اسی دنیا میں ہے ۔مگر اب اسکا ضبط جواب دے گیا تھا اسلیے رو دیا ۔۔۔۔

کیوں خوابوں پے تیرے سائے ہیں ۔۔۔

دل کیوں ہے تنہا میرا ۔۔۔۔۔

کیوں خاموش ہے زباں میری ۔۔۔۔

لفظوں میں  کہہ پاؤں نہ ۔۔۔۔

کیوں درد ہے اتنا ۔۔۔۔۔

تیرے عشق میں ۔۔۔۔۔

ربا وے ۔۔۔۔ربا وے ۔۔۔۔۔

      ⚙️⚙️⚙️⚙️⚙️⚙️    

“ یہ کیا ہوگیا عاشر صاحب  ہماری سکینہ !!! ضبط سے لال ہوتی آنکھوں سے انھوں نے شہلا بیگم کو دیکھا " مکافاتِ عمل !!! ہوسپیٹل کی ساری آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں سوائے اس لفظ کے جو ہتھوڑے کی طرح سکینہ کے کانوں  میں پڑ رہا تھا ۔اسنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا مگر اندر سے اٹھتی آوازوں کو کون چپ کروا سکتا۔تھا مکافاتِ عمل تو اٹل ہے جیسا بو گے ویسا کاٹو گے جیسی کرنی ویسی بھرنی حیدر کی عارضی کمی کو دیکھ کر اسنے دھکا مارا۔تھا اسے مکافات میں  تاابد کے لیے ادھوری عورت قرار دے دیا گیا  تھا بنجر ۔۔۔۔۔۔۔۔

  اچانک اسکی نظر اپنی انگلی میں موجود انگوٹھی پر پڑی کو اسنے اتار کر پھینک دی مسلسل رونے کی وجہ سے پیٹ سے خون پھر بہنے لگا تھا مگر اب اسکا درد کہاں تھا درد تو دل کا تھا جس کا کوئی علاج نہیں تھا اور پھر اسی درد کے ساتھ وہ پھر بے ہوش ہوگئی ۔

Must read and give feedback
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.

Click Here To Download.

Complete Download Link

Post a Comment

0 Comments