Latest

6/recent/ticker-posts

Mohabbatain(season 2) By Rimsha Hussain Complete Novel


 I hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group.  And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.

Sneak Peek:1

تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا

ہاں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مجھے باہر تمہاری شادی کے ارینجمنٹس دیکھنے چاہیے تھے کرسیاں لگوانی چاہیے تھی یہ کہتا پِھرتا محبوب کی خوش میں خوش ہونا اصل محبت ہے پھر تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھ کر آہیں بھرتا یہی چاہتی ہو نہ تم۔عماد اُس کی ایک رٹ پہ میٹھا سا طنزیہ کیے بولا

میں ایسا کجھ نہیں چاہتی۔معصومہ جھنجھلائی

تو ٹھیک ہے اب دوبارہ تمہارے منہ سے کوئی بکواس نہ سنو اپنا مائینڈ سیٹ کرلوں بار بار تمہاری بدتمیزی برداشت نہیں کروں گا۔عماد کا لہجہ وارننگ سے بھرپور تھا

دھمکارہے ہو مت بھولو میں معصومہ عباد ہوں تگنی کا ناچ نہ نچایا تو میرا نام بدل لینا۔معصومہ انگلی اُٹھا کر چیلنج کرگئ

کریکشن بیگم معصومہ عباد نہیں معصومہ عماد یہ بات اپنے چھوٹے سے دماغ میں ذہین نشین کرلوں۔عماد انگلی سے اُس کے دماغ میں دستک دیکھ کر باور کروانے لگا

مجھے پتا نہیں تھا تم اتنے کمینے ہوسکتے ہو۔معصومہ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر گُزرتی۔

رو کیوں رہی ہو شادی ہوگئ ہو تو اچھے سے پتا چل جائے گا میرے کمینے پن کا۔عماد سکون سے کہہ کر وارڈروب سے اپنا ڈریس نکال کر واشروم کی طرف بڑھنے لگا جب معصومہ نے چیختے کہا

میں جلد اِس رشتے سے خود کو آزاد کراؤں گی نہیں رہوں گی تمہارے ساتھ۔

دیکھتے ہیں۔عماد اطمینان سے جواب دیتا واشروم کا دروازہ بند کرگیا اُس کے آنے کے بعد معصومہ غصے سے دیکھ کر خود بھی واشروم کی طرف بڑھ گئ۔

بیس منٹ بعد واپس آئی تو سادہ سے کالے جوڑے میں ملبوس تھی عماد جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر مسکراکر فون میں جانے کیا دیکھ رہا تھا معصومہ پہ نظر پڑی تو چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات نمایاں ہوئے۔

ابھی میں زندہ ہوں جب مرجاؤں تو آرام سے کالا جوڑا پہن کر سوگ منالینا۔معصومہ کو بیڈ کی دوسری طرف بیٹھا دیکھا تو دانت پیس کر بولا

میرے سارےجذبات مرگئے ہیں اُس کا سوگ منارہی ہوں۔معصومہ نے کرارہ سا جواب دیا

جو دوسروں کے جذبات کی قدر نہیں کرتے اُن کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔عماد نے باور کروایا

مجھے سکون کی نیند لینی ہے اِس لیے براہ کرم میرے منہ مت لگو۔معصومہ اپنے اُپر چادر ڈال کر بے زاری سے بولی

تمہارے منہ لگنے کا مجھے بلکل کوئی شوق نہیں اِس لیے تم میرے منہ مت لگو۔عماد نے ایٹ کا جواب پتھر سے دیا

جاؤ یہاں سے اب مجھے سونا ہے۔معصومہ نے باہر جانے کا راستہ دیکھایا

تو سوجاؤ میں نے کونسا باندھ رکھا ہے۔عماد ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولا

مجھے اکیلے سونے کی عادت ہے یا تو امی سے کہہ کر مجھے اپنے کمرے میں لیں جانے کا کہو یا اپنی تشریف لیں جاؤں۔معصومہ نے تفصیل سے بتانا ضروری سمجھا

اگر تم میرے ساتھ ڈرامے کرنا چاہتی ہو تو بتادوں میں صوفے پہ بلکل نہیں لیٹنے والا اِس لیے اپنے دماغ سے یہ خیام خیالی نکال کر باہر پھینک دو۔عماد اپنی جگہ پہ لیٹتا بتانے لگا

تمہیں شرم نہیں آے گی ایک لڑکی کے ساتھ سوتے ہوئے ۔معصومہ کی بے تکی بات پہ عماد کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لیں

لڑکی اگر بیوی کے رتبے پہ فائز ہوگی تو ہاں مجھے شرم نہیں آئے گی۔عماد کے جواب پہ معصومہ منہ میں بڑبڑاتی اپنے اُپر چادر لیکر اُس کی طرف کی پشت کیے لیٹ گئ عماد نے بھی جسے ہی چادر میں ہاتھ ڈالا معصومہ بدک کر اُٹھ گئ

یہ کیا بے ہودگی ہے۔معصومہ دل پہ ہاتھ رکھتی اُس کو گھورنے لگی

اب میں نے کیا کردیا۔عماد بے زار ہوا 

چادر دوسری لو۔معصومہ ساری چادر اپنے اُوپر لیکر بولی

معصومہ کیا ہوگیا ہے اِدھر کرو بلینکٹ۔عماد چادر اپنی طرف کھینچتا بولا

نہیں کروگی یہ چادر ہے بلینکٹ ہے جو بھی ہے میرا ہے بیڈ شیئر کردیا ہے یہ نہیں کروں گی۔معصومہ پھر سے اُس کو اپنی طرف کھینچا

اُدھر کرو۔عماد نے زچ ہوتے چادر ایک بار کھینچی

نہیں مطلب نہیں۔معصومہ اپنی بات پہ بضد ہوئی۔

اگر میں نہیں تو تم بھی نہیں۔عماد اتنا کہہ کر زور سے چادر کا کونا پکڑ کر دور اُچھالی جو سیدھا صوفے پہ گِری معصومہ کا منہ حیرت سے کُھلا کیا کھلا رہ گیا۔

واحیات انسان۔معصومہ اُس کو نئے نام سے نوازتی کشن اُس کی طرف پھینک کر بنا چادر کے لیٹ گئ۔عماد بھی زبردست گھوری سے نوازتا سونے لگا

Sneak Peek:2

مسٹر وہ محترمہ آپ کی کیا لگتی ہیں؟بھاری آواز سن کر تبریز نے گردن موڑ کر دیکھا جہاں ایک لڑکا پولیس وردی میں ملبوس کڑی نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔

بیوی ہے میری آپ کو کوئی اعتراض؟پولیس والے کے بھی وہی سوال پہ تبریز سچ مچ تپ گیا

اچھا۔ پولیس والا مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھتا عبیر کی طرف بڑھنے لگا جس کے ساتھ کانسٹیبل کھڑا تھا

محترمہ یہ آپ کے کیا لگتے ہیں۔ پولیس والے نے اب کی تبریز کی طرف اشارہ کرکےعبیر سے پوچھا جو بس گھر کیسے جائے کا سوچ رہی تھی

میری مسز پہلے ہی گُزرے واقع کی وجہ سے پریشان ہیں پھر آپ کیوں اُن سے ایسے سوال کرکے ڈپریس کررہے ہیں۔اُس سے پہلے عبیر کجھ اور بولتی تبریز عبیر کے ساتھ کھڑا ہوتا بولا لفظ مسز پہ عبیر بے ہوش ہوتے ہوتے بچی

تھانے چلے تک تک آپ کی مسز ٹھیک ہوجائے گی۔پولیس والے نے چبا چبا کر کہا عبیر کی سٹی گم ہوگئ تھی

تھانے کیوں ہم نے کونسا جرم کیا ہے جن کو پکڑنا چاہیے اُن کو تو آرام سے جانے دیا۔تبریز فکرمندی کے آثار عبیر کے چہرے پہ دیکھتا اُس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیکر رلیکس کرنا چاہا ساتھ میں پولیس والے سے کہا

دیکھے جی ہمیں اِن محترمہ نے کال کی تھی کافی گھبرائی ہوئی سی تھی تو ہم کیسے مان لیں آپ ان کے خاوند ہیں۔پولیس والے کی بات سن کر تبریز نے عبیر کو گھورا جو خود تھانے فون کرنے پہ پچھتا رہی تھی۔

میری بیوی عقل سے کجھ پیدل ہے آپ کا وقت برباد ہوا اُس کے لیے معذرت اب آپ اپنی تشریف لیں جا سکتے ہیں۔تبریز کوفت سے بولا

پہلے۔ذرہ آپ اپنی تشریف کا ٹوکرا تھانے لیں چلے اُس کے بعد۔پولیس والے کی بات پہ تبریز نے دانت پیسے

اوکے میں چلتا ہوں پر عبیر نہیں چلے گی تھانے۔تبریز سنجیدگی سے بولا

ہمیں اِن سے سوال جواب کرنے ہیں تو اِن کا چلنا ضروری ہے۔پولیس والے نے بھی سنجیدگی سے کہا

یہاں کرلیں جو سوال کرنے ہیں پر عبیر تھانے نہیں چلے گی ہمارے خاندان کی لڑکیاں تھانوں کے چکر نہیں لگاتی۔تبریز نے اپنی بات پہ زور دیا تو پولیس والے نے جیسے ہار مان لی

تو یہ آپ کی بیوی ہیں؟پولیس والے نے کنفرم کرنا چاہا

بلکل۔تبریز بنا تاخیر کیے بولا

آپ اُن کی بات سے متفق ہیں۔اب کی عبیر سے پوچھا جو پریشان کھڑی تھی تبریز نے اُس کے ہاتھ پہ دباؤ دیا تو فورن سے اپنا سراثبات میں ہلایا تبریز کے چہرے پہ دلکش مسکرائٹ نمودار ہوئی

پوچھ لیا مل گیا جواب ہوگئ تسلی اب ہم جائے جب میں نے اِن کا ہاتھ تھاما ہوا ہے تو سوال کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔تبریز نے کہا

میری تسلی نہیں ہوئی اِس لیے آپ دونوں کا نکاح دوبارہ ہوگا اگر آپ شادی شدہ ہیں تو۔پولیس والے کی بات پہ اب دونوں شاک کی کیفیت میں اُس کا چہرہ تکنے لگے عبیر کی آنکھوں میں نمی اُترگئ تھی وہ جی جان سے لرز اُٹھی تھی نکاح کا سن کر بھلا وہ کیسے کردیتی نکاح تبریز سے اپنے گھروالوں کو کیا منہ دیکھاتی

Must read and give feedback ,

click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.

Click Here To Download Link

Complete Download Link

Post a Comment

0 Comments