اس نے ٹیرس پر قدم رکھا……
تو وہ سامنے گرل پر ہاتھ جمائے کھڑی تھی……
اورحان قدم قدم چل کر اس تک گیا……
کہ ماہ رخ کی آواز نے اس کے قدم وہیں روک دیئے……
اللہ تعالی میرے تو ماں باپ بھی نہیں ہیں اور شوہر مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے اور امبرین باجی کہتی ہیں……
کہ میں ان کے سارے کام کروں……
میں نے بالکل صحیح کہا تھا……
میں ان کی مجبوری ہوں……
اس سے زیادہ کچھ نہیں وہ تو میرے ساتھ کھانا کھانا بھی پسند نہیں کرتے……
میرے اور صرف میرے اللہ دیکھا آپ نے انہوں نے کس طرح مجھ سے بات کی……
اورحان کو اس لڑکی سے ایک دم خوف محسوس ہوا تھا….
وہ اس کی شکایت لگا رہی تھی اور لگا بھی اس ہستی سے رہی تھی……
جو ہر چیز پر قادر تھا……
وہ دو قدم اور اس کے قریب ہوا……
ہوا کے زور سے اس کا دوپٹہ کندھوں پر آگرا تھا……
بہت سارے بال اُڑ اُڑ کر اس کو خوشامد کہہ رہے تھے……
ماہ رخ کی آواز پر وہ چونکا……
اللہ پاک میں اب ان کے ساتھ ہرگز بھی کھانا نہیں کھاؤں گی……
اور اگر میں سوری کرلوں پھر بھی نہیں؟
آواز اتنی اچانک اور اتنی قریب سے آئی تھی……
کہ وہ اچھل پڑی……
دل ایک سوبیس کی رفتار سے دوڑ رہا تھا……
اس نے پلٹ کر خفگی سے دیکھا……
اورحان کو وہ اس وقت روٹھی ہوئی چھوٹی سی بچی لگی تھی……
بچی ہی تو ہے……
وہ اچھی طرح جانتا تھا……
کہ ماہ رخ اس سے کافی چھوڑتی ہے……
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے……
ماہ رخ نے یہ اپنی ذرا نظروں کا زاویہ بدلا……
وہ اتنے قریب تھا……
بڑی بڑی آنکھیں ماتھے پر بکھرے بال اور بڑی ہوئی شیو……
اس کے دماغ میں ایک جھماکہ ہوا……
وہ بچپن میں ایسے ہی اپنے بابا کی تھوڑی سی بڑی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرتی تھی……
کتنا مزہ آتا تھا……
ہتھیلی پر بڑے مزے کی گُدگُدی سی ہوتی تھی……
دل نے بڑی شدت سے خواہش کی تھی……
مگر اس نے فورا نظروں کا زاویہ بدل لیا……
اورحان نے واپس جاکر لائٹ اون کی……
پھر اس سے مخاطب ہوا……
آئیں بیٹھیں……
آج کچھ باتیں کر لیتے ہیں……
وہ اس کے ساتھ والے سنگل صوفے پر ٹک گئی تھی……
اب جب کہ زندگی ساتھ ہی گزارنی ہے……
تو ایک دوسرے کی پسند ناپسند معلوم ہونی چاہیئے……
وہ بس خاموشی سے اس کو دیکھ رہی تھی……
رشتوں کی رسی تب کمزور ہوتی ہے……
جب انسان غلط فہمی میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب بھی خود ہی بنا لیتا ہے……
یہ میرا چونتیس سال کا نچوڑ ہے……
اب میں آپ کو اپنے بارے میں کچھ باتیں بتا دوں……
وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرا……
جس وقت میں آفس سے آیا تھا……
میرے سر میں شدید درد تھا اور جب میرے سر میں درد ہوتا ہے……
کسی کا مجھ سے بات کرنا……
مجھ کو مزید غصہ دلا دیتا ہے اور وہ جو سامنے بیٹھی تھی……
اس کی سوئی تو چونتیس سال پر ہی اٹک کر رہ گئی تھی….
وہ کہہ رہا تھا……
آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہے……
آپ مجھ سے بات کریں گی……
وہ ایک لمحے کے لیے رکا حیرت سے ماہ رخ کو دیکھا……
وہ اُنگلیوں پر کچھ گن رہی تھی……
ایک منٹ میں آپ سے بات کر رہا ہوں……
آپ یہ کیا کر رہی ہیں……
اورحان نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا……
ماہ رخ نے ایسے گردن ہلائی……
جیسے اب کچھ نہیں ہو سکتا……
پھر گل فشانی کی آپ کو معلوم ہے……
آپ مجھ سے پورے دس سال بڑے ہیں……
اس کا تو صدمے سے برا حال تھا……
اورحان کا دل کیا……
اٹھ کر سامنے دیوار پر اپنا سر دے مارے……
وہ یہاں اتنی سنجیدگی سے اپنا اور اس کا رشتہ بہتر کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ……
اس نے نفی میں سر ہلایا……
اس وقت اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا……
وہ اٹھ کھڑا ہوا چلیں میں کھانا لگاتا ہوں………
آپ جلدی سے آجائیں……
وہ وہاں سے جاچکا تھا……
ماہ رخ کی بھی اپنی ہی فلاسفی تھی……
اس کا ماننا یہ تھا……
کہ تیس سال کے بعد انسان بڑھاپے کی طرف جانا شروع ہو جاتا ہے……
اس بارے میں اس کی بہت لوگوں سے بحث بھی ہوئی……
مگر وہ اپنے قول سے ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی
0 Comments