Latest

6/recent/ticker-posts

Dil Ko Qarar Aya(season 3 Tum Mere Nikah Main Ho) by Muntaha Chouhan Complete Novel

 


I hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group.  And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.

Sneak Peek:1

آپ مجھ سے ناراض ہو جاٸیں گے تو میں کیا کروں گی۔۔؟؟ کنول نے اس کے قریب ہوتے مان سے کہا۔ ناراض ہونا بنتا نہیں کیا۔۔؟إ آفتاب نے اس کا قریب آنا نوٹ کیا تھا۔ نہیں ۔۔ بالکل نہیں۔۔ ! کنول نے اس کے گلے کے گرد بانہیں ڈالیں تھیں۔ آفتاب نے نفی میں سر ہلاتے اس کی بازوں کا حصار اپنے سے بہت ہی نرم انداز میں الگ کیا تھا۔ اور آگے بڑھ گیا تھا۔ کنول نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ رکا تھا۔ کنول نے اس کا ہاتھ تھامے اسے اپنے ساتھ روم میں لے گٸ۔ وہ بھی خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیا۔ لیکن وہ خفا خفا سا تھا۔ اور کنول تو اسے منانے کا ہر فن جانتی تھی۔ سوری۔۔۔! اسکو بیٹھاتے خود گھٹنوں کے بل بیٹھتے وہ کان پکڑ گٸ۔ کہاں بھیجا ہے اسے۔۔؟؟ اسے آفتاب سے اسی سوال کی توقع تھی۔ اس لیے چہرے پے دھیمی سی مسکان سجی۔ جہاں بھی ہے۔۔ یقین رکھیے محفوظ ہے۔ اب کی بار آواز میں کھنک تھی۔ کہتے ہوۓ وہ اٹھی تھی اپنی جگہ سے لیکن جا نہیں پاٸ۔ آفتاب نے اس کی کلاٸ تھامے اپنی اوت کھینچا کے وہ کٹی پتنگ کی طرح اس کی گود میں آن گری۔ آپ کو کیا لگتا ہے۔۔؟؟ مجھ سے چھپا لیں گیں تو کیا آفتاب شیر خان پہنچ نہیں پاۓ گا۔۔؟؟ اب کی ار آفتاب کا انداز بھی چیلنجنگ تھا۔ رٸیلی۔۔؟؟ کی بول میں مت رہیے گا۔۔ آفتاب شیر خان کی بیوی ہیں ہم۔۔! تو ان کی سچ کو بھی جانتے ہیں۔۔ اور اس سچسے دو قدم آگے چلنا بھی۔۔۔! کنول نے آنھ ونک کی۔ آفتب نے نفی میں سر ہلاتے ہرا سانس خارج کیا۔ ویسے۔۔ بیوی سے تو کچھ بھی امید کی جاسکتی ہے۔۔ لیکن۔۔ والدہ محترمہ سے ۔۔ مجھے یہ امید نہ تھی۔ کہتے ہوۓ بہت پرسکون انداز میں بیڈ کراٶن کے ساتھ ٹیک لگاتے وہ کنول کو حیرت میں مبتلا کر گیا۔ آ۔۔۔ آپ کو کیسے پتہ۔۔؟؟ کنول کو گڑبڑ کا احساس ہوا۔ کیا کیسے پتہ۔۔؟؟ کہ۔۔ آپ نے کیسے مما کے ساتھ مل کے ملکہ کو یہاں سے نکالا۔ ؟؟ آفتب نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔ ڈونٹ ٹیل می۔۔۔!جس کے ساتھ میں نے ملکہ کو بھیجا وہ۔۔ بھی آپ۔۔۔؟؟ کنول کے ماتھے پے فکر کی لکیریں نمودار ہوٸیں۔ آفتاب اب کی بار مسکرایا تھا۔ اور اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا کنول کے پاس آتے اس کی کمر کے گرد بازو حاٸل کیے تھے۔ آپ کو لگا آپ آفتاب شیر خان سے دو قدم آگے چلیں گیں۔۔؟؟ جب کہ۔۔ آپ کو اچھے سے بتا دوں۔۔ میری اجازت کے بنا میری حویلی میں کوٸ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔۔ تو آپ تو پھر میری بیوی ہیں۔ اس کے قریب ہوتے اس کی سانسوں کو محسوس کرتا وہ آج بہکا تھا۔ اسے امید ہی نہیں یقین تھا۔ اسکی بیوی کنول ضرور کچھ نہ کچھ لرے گی۔ اس لیے وہ پہلے سے ہی پلان بنا کے بیٹھا تھا۔ اور وہ خود بھی ابھی ملکہ کی رخصتی نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے اسے منظرعام سے ہٹنا چاہتا تھا۔ موقع اس کو کنول نے دے دیا۔ آپ بہت چالاک ہیں۔۔ کنول نے منہ بنا کے کہا۔ نہیں میں آفتاب ہوں۔۔ !اب کی بار آفتاب نے آنکھ ونک کی تھی۔

Sneak Peek:2

یہ۔۔ یہ لاٸیٹ کو کیا ہوا۔۔؟؟ اپنی جگہ سے اٹھتے وہ اندازے سے دروازے کو ٹٹولنے کی کوشش کرتی آگے بڑھی کہ کسی کے فولادی سینے سے ٹکرا گٸ۔ اس کی چینخ براآمد ہوتی کہ مقابل نے اس کے منہ پے ہاتھ اس کی چینخ کا گلا گھونٹا۔ وہ بری طرح ڈری تھی۔ انجان جگہ تھی انجان لوگ۔۔۔! اور ایسے میں۔۔ یہ سب۔۔؟؟ نہ ماں باپ پاس تھے۔۔ نہ گھر اپنا تھا۔ ککککووو۔۔۔۔۔نننننننم؟؟؟ منہ سے ہاتھ ہٹتے ہی ہکلاتے پوچھا۔ تمہارا مجازی خدا۔۔۔! کان کے پاس سرگوشی ہوٸ۔ ملکہ کے تو رونگٹے کھڑے ہوگۓ دل و دماغ ماننے سے انکاری ہوا۔ زیشان ارسل ۔۔۔۔؟ یہاں کیسے آسکتا تھا۔۔۔؟؟ یہاں کا ایڈریس اسے کس نے دیا۔۔؟؟ اس کے دماغ نیں سوالوں کا جنجال پیدا ہوا۔۔ کیا ہوا۔؟؟ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں۔۔ زوجہ محترمہ۔۔۔؟؟ مجھےتو لگا تھا۔ بہت اچھی جگہ چھپ کے بیٹھیں گیں۔۔ اور۔۔ دیکھو تو۔۔ سہی۔۔ میرے ہی شہر میں۔۔ مجھ سے چھپ کے بیٹھ گٸیں۔۔؟؟ زیشان نے مذاق اڑایا۔

ملکہ نے اس کا جواب دینے کی بجاۓ اس سے دور ہوتے دروازے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہی۔ کہ زیشقن نے اسے کھینچ کے اپنے سینے سے لگایا۔ وہ ڈری سہمی اس کے سینے پے ہاتھ رکھے خود کو اس سے دور کرنے لگی ۔ جس کی آنکھوں سے ہی اسے ہمشہ خوف آیا کرتا تھا۔ ؒج بھیوہ ان آنکھوں میں دیکھنے کی سکت پیدا نہ کر سکی۔ کیا سمجھتیہو تم خود کو۔۔؟؟ ہاں۔۔؟؟ عین بارات والے دن۔۔ تم گھر سے بھاگ گٸ۔۔؟؟ تمہیں کیا لگا۔۔؟؟ مجھ سے بچ جاٶ گی۔۔۔؟ زیشان غصہ سے دبا دبا چلایا۔ آپ۔۔۔۔آپ۔۔ مجھے ۔۔ماریں گے۔۔۔؟؟ ملکہ نے ڈرے سہمے انداز میں معصومیت سے پوچھا۔ کہ زیشان ارسل کے ماتھےکے بل ایک دم سے ہٹے تھے۔ کیا کچھ نہ تھا۔ ان ہرنی جیسی آنھوں میں۔۔ ؟؟ ڈر خوف۔۔؟ سہما پن۔۔۔ وہ کیوں اس کے ساتھ برا سلوک کر رہا تھا۔۔۔؟؟ وہ اسے محبت سے بھی تو ہینڈل رک سکتا تھا۔ اور نفرت سے زیادہ محبت کا ڈسا انسان کو اندر سے مار کے رکھ دیتا ہے۔۔۔ تمہیں لگتا ہے۔؟؟ زیاشن ارسل تمہیں مارے گا۔۔۔؟؟ اس کے گال کو پیار سے چھوا۔ کہ ملکہ کرنٹ کھاکے پیچھے ہٹی۔ آپ۔۔۔ آپ مجھ سے دور ہو کے بات کریں پلیز۔۔۔! آپ سے ڈر لگتا ہے۔۔ مجھے۔ ملکہ نے آنسو پونچھتے کہا۔۔ ڈر کے آگے محبت کھڑی ہے۔۔۔! وہ تمہیں نظر نہیں آتی۔۔؟؟ زیشان اب اسے محبت سے اپنی طرف کرنے لگا۔ محبتت۔۔۔۔۔؟؟؟ اس نے زیرِلب دہرایا۔ ہاں۔۔۔؟؟ ہمارے بیچ نکاح کا رشتہ ہے۔۔ ملکہ۔۔۔! بیوی ہو تم میری۔۔۔ اس کے قریب جاتے اسے بہت کچھ باور کرانے لگا۔ جبکہ وہ ابھی بھی کانپے جا رہی تھی۔ پلیز۔۔ آپ ابھی یہاں سے چلے جاٸیں۔ ملکہ کو اور تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ اسے جانے کا بول دیا۔ تمہیں نہیں لگتا۔۔۔؟؟ تم نے بھاگ کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔ جس کی سزا تو بنتی ہے ناں۔۔۔؟؟ زیشان اس کے مدمقابل ہوا۔ کیییسییسیس۔۔یییی۔۔؟؟ سزا۔۔؟ ؟ملکہ کا دل اچھل کے حلق میں آگیا۔ زیشان اس کے مزید قریب ہوتا اس کے چہرے پے جھکا۔ یہ پہلا لمس تھا۔ جس سے دونوں ہی روشناس ہوۓ تھے۔ ملکہ نے اسے پیچھے دھکیلنا چاہا کہ گرفت مزید سخت ہوٸ۔۔ ملکہ نے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبایا۔ اس کا جنون سہنا پہلے لمس پے ۔۔۔ انتہاٸ کٹھن لگ رہا تھا۔ وہ اپنی سانسیں رکتی۔۔محسوس کرتی آنکھیں بند کر گٸ۔ زیشان جیسے ہی پیچھے ہٹا۔ وہ اس کی بانہوں میں جھول گٸ۔ ایک دلفریب مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا۔ ابھی صرف لبوں کا جام پلایا ہے۔۔۔ تو یہ حال ہے۔۔۔ جب میری قربت میں آٶ گی۔۔ تو کیا ہوگا۔۔؟؟ اس کے نرم ونازک وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھاۓ وہ بستر کی جانب بڑھا۔ اور اسے دھیرے سے لٹایا۔ اس کا سر تکیہ پے رکھتے وہ اس کے ماتھے پے بوسہ دیتے پیچھے ہٹا۔ میں ۔۔ نہ تم سے کوٸ بدلہ لینا چاہتا ہوں۔۔ اور نہ تم سے محبت کرنا چاہتا ہوں۔۔ لیکن۔۔ نجانے کیوں۔۔؟؟ مجھے لگنے لگا ہے تم میری محبت میری دیوانگی بھی سہو گی۔۔۔ اور میرا بدلہ بھی۔۔۔! کیونکہ میں چاہ کے بھی یہ بات فراموش نہیں کر سکتا۔۔ کہ ۔۔ تم۔۔ دشمنوں کی بیٹی ہو۔۔! ا

Must read and give feedback ,

click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.

Click Here To Download Link

Complete Download Link

Post a Comment

0 Comments