Sneak Peek:1
بزرگ نے دو تین پھونکیں شانی پرماری اور ہاتھ چھوڑ دیا۔۔شانی کو ایک دم سے شدید سردی لگنے لگی حالانکہ جون کا مہینہ تھا گرمی سے جسم پگھلتا تھا مگر شانی سردی سے کانپنے لگا اور پھر ایک دم سے اندھیرا چھا گیا جیسے سورج کو گرہن لگ گیا ہو اور اس کے ساتھ ہی بزرگ کے ساتھ والی کرسی پر ایک بھیانک شکل والا آدمی نمودار ہوا جس کو دیکھ کر کمرے کے سب نفوس دنگ رہ گے سواے بزرگ کے ان کے چہرے پر عجیب مسکراہٹ تھی۔۔ بزرگ نے جلدی سے ایک حصار سب کے گرد کھینچا جس سے وہ لوگ بے ہوش ہونے سے بچ گے
وہ آدمی انتہاٸ بھیانک شکل کا تھا۔۔پورا جسم سیاہ تھا آنکھیں لال انگارہ تھیں جن میں بتلیاں موجود ہی نہیں تھیں۔۔ ناخن انتہای بڑے اور جسم پر لمبے لمبے بال تھے جس سے اسکا جسم ڈھکا ہوا تھا۔۔لمبےلمبے دانت جن سے کالا لاوہ ٹپک رہا تھا۔۔ وہ انتہاٸ غصے میں تھا۔۔۔
کیا چاہتا ہے؟؟؟ اسنے بھیانک آواذ میں بزرگ کو پکارا۔۔۔۔۔۔
*********************************۔
کیا چاہتا ہے توو؟؟؟؟؟ اس سایے نے بزرگ سے خوفناگ گرج سے پوچھا۔“
کون ہے تو کیوں بچے کے بیچھے پڑا ہے؟؟“
بزرگ نے مطمٸن سے انداز میں شانی کی طرف اشارہ کر کے کہا
۔۔۔ تو دور رہے اس سب سے اپنا کام کر میرے راستے میں مت آ۔۔۔“ سایے نے بزرگ کے سوال کو نظر انداذ کر کے غلاضت ٹپکاتے منہ سے کہا۔۔ کمرے میں بیٹھے سب نفوس ساکت سے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔۔۔شمو بزرگ کے حصار میں ہونے کی وجہ سے اپنے ہوش میں بیٹھی ہوی تھی۔۔۔ اور شانی منہ کھولے حیرت سے اس گندگی کے ڈھیر کو دیکھ رہا تھا جو بولتے ہوے منہ سے گندا سیال بہا رہا تھا۔۔ شمو نے اس گند کو دیکھ کر بے ساختہ جھرجھری لی اور بمشکل الٹی روک کر بیٹھی رہی۔۔۔““
”تو جانتا ہے نا میں کون ہوں؟؟
بزرگ نے دھمکی آمیز لہجے میں سایے سے کہا
ہاں ۔جانتا ہوں اس لیے آرام سے کہتا ہوں کہ چلے جاٶ ۔۔ میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتا۔۔ یہ میرا بھی دشمن ہے اور شیطان کا بھی۔۔“
سایے نے حقارت سے سرخ آنکھوں سے شانی کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
اور تو نے اچھا نہیں کیا ان دونوں کو بچا کر بہت پچھتاۓ گا تو۔۔۔سایہ گردن گھما کر امام صاحب سے مخاطب ہوا۔۔۔
امام صاحب طنزیہََ مسکرا کر رخ پھیر گۓ۔۔۔
تو سیدھی طرح بتا کہ کیا مقصد ہے تیرا ورنہ تیرے لیے بہت مشکل ہو جاۓ گی۔۔۔““
بزرگ نے اب کی بار غصے سے گرج کر کہا۔۔۔
ان کی آواذ اتنی جلالی تھی کہ پاس بیٹھے شانی کا دل ایک لمحے کو اچھل کر حلق میں آ گیا تھا۔۔
بولا نا کہ ہٹ جا میرے راستے سے یہ صرف میرا کام ہی نہیں میرا بدلہ بھی ہے۔۔۔
سایے نے غصے سے دھاڑ کر کہا ۔۔۔۔“،
ٹھیک ہے اگر ایسے تو ایسے ہی سہی۔۔۔۔۔۔۔۔،”
بزرگ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گے اور شانی کے سر پر اپنا انگوٹھا رکھ دیا۔۔۔
سایہ گھبراکر اٹھنے لگا تو کسی ان دیکھی قوت نے اسے جکڑ لیا۔۔۔بزرگ نے منہ میں کچھ بڑھنا شروع کر دیا۔۔۔جوں جوں وہ پڑھتے ویسے ویسے ہی سایہ خود کو چھڑانے کی پوری کوشش کرتا مگر بے سود۔۔
اللہ کے کلام میں اتنی طاقت ہے کہ کوٸ اور طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔۔۔
اور ہم لوگ نہ نماذ پڑھیں اور نہ قرآن پڑھیں تو جادو اور جنات جیسی طاقتیں انسان پر حاوی ہو جاتی ہیں اور انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔““،۔۔
Must read and give feedback
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.
Click Here To Download Link
0 Comments