Sneak Peek:1
خ۔۔۔خان۔۔
جاؤ چینج کر کے آؤ۔۔اسے گلابی رنگ کی ساڑھی پکڑاتے خان نے سرد لہجے میں کہا۔
میں یہ کیسے پہنوں گی خان ؟ اس نے لب کاٹتے شرم سے نظریں جھکالیں تھیں اسے پہننے کا سوچ کر ہی اس کے پسینے چھوٹ پڑے تھے۔
اپنے شوہر کا حکم نہیں مانو گی ؟ خان نے پینترا بدلہ۔۔زمل نے بےساختہ رخ پھیرا کچھ سوچتی وہ ساڑھی پکڑے واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی۔
خان بےصبری سے بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔سر کے پیچھے بازو رکھے وہ بے تابی سے نظریں واشروم کے دروازے پر ٹکائے بیٹھا تھا۔
دس منٹ گزرے۔۔ پھر پندرہ۔۔۔ پھر بیس۔۔آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا مگر وہ باہر نہ آئی۔۔
خانم فورا باہر آؤ مجھے پتا ہے تم جان بوجھ کر باہر نہیں آرہی۔۔خان واشروم کا دروازہ کھٹکاتا ہوا بولا۔
زمل نے گھبراتے ہوئے خود پر نظریں ڈالی گلابی باریک شفون کی ساری پر تاری کا کام کیا گیا تھا جو اس کے نازک اندام سراپے پر بے حد جچ رہی تھی۔
مگر زمل کو اس کا بلاؤز بالکل پسند نہیں آیا تھا۔جس کا اگلا گلا انتہا کا گہرا تھا جبکہ پیچھے سارا ڈوریوں سے بند کیا گیا تھا۔
ساری کا پلو کھولتے اس نے کمر سے گزارتے اپنے دوسرے کندھے سے آگے کرکے خود کو چھپایا مگر وہ جانتی تھی یہ بے بنیاد سا احتجاج خان کے ارادے نہیں بدل سکتا۔
میں آرہی ہوں۔۔بس پانچ منٹ۔۔وہ خان کی آواز پر اچھلی تھی پھر خشک حلق تر کرتی مری مری آواز میں بولی۔
خانم میں پانچ تک گنوں گا ورنہ دروازہ توڑ کر اندر آجاؤں گا۔۔خان کی دھمکی پر وہ ایک گہرا سانس خارج کرتی دروازے کی طرف بڑھی۔
ٹک کی آواز پر دروازہ کے کھلنے پر خان فاتح مسکراہٹ سے تھوڑا پیچھے ہٹا تھا۔
لب دبا کر وہ جو زمل کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا اس کو ساڑھی کے پلو میں خود کو چھپاتے دیکھ خان نے منہ بگاڑا۔
وہ کانپتی ٹانگوں سے باہر نکلی شرم سے لرزتی پلکیں جھکائے اس کی نظریں خان کی طرف اٹھنے سے انکاری تھیں۔۔
خانم۔۔مجھے حق ہے تم پر خود کو چھپاؤ مت۔۔اس کی طرف قدم بڑھاتے خان نے زمل کا چہرہ اوپر اٹھایا زمل کی نظریں خان سے ٹکرائی تھیں۔۔
خان کی نظروں سے نگاہیں ملانے پر اس کے گال مزید تپ اٹھے تھے۔وہ بے ساختہ سر ہلاتی نگاہیں جھکا گئی۔
خان نے اس کا چہرہ چھوڑتے اس کا پلوں دوسرے کندھے سر سرکایا۔۔اب پلو ایک کندھے پر ہی تھا۔
اس سے پیچھے قدم ہٹاتے خان نے اوپر سے لے کر نیچے تک غور سے زمل کو دیکھا جیسے اس کا ہر نقش زبر کر رہا ہو۔۔
گھبراہٹ سے زمل نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھی۔خان کی جان لیوا قربت کا سوچتے ہی اس کی سانسیں اٹکنے لگی تھیں۔
خ۔۔خان۔۔مسلسل خان کے خاموش رہنے پر زمل نے کانپتی آواز میں اسے پکارا۔
میری طرف دیکھو خانم۔۔خان کے سرد لہجے میں بولنے پر زمل نے جھٹکے سے آنکھیں کھولتے اس کی طرف دیکھا۔
مجھے سے نظریں مت ہٹانا۔۔زمل کو بولتے خان نے نیچے جھکتے اپنے شوز میں چھپا چاقو نکالا تھا۔
زمل چاقو دیکھتی گھبرا گئی تھی۔اپنے ہونٹ تر کرتے وہ خان پر ہی نظریں جمائے کھڑی تھی۔آج اسے کافی دیر بعد خان سے خوف محسوس ہوا تھا۔
خان چاقو نکالتا اس کی طرف بڑھا۔۔زمل نے خان کو دیکھتے نظریں جھکا لی تھیں۔
تم نے میری بات نہیں مانی خانم اب سزا ملے گی۔۔ایک ہی جست میں اس کے قریب پہنچتے ٹھوڑی سے اس کا چہرہ تھام کر اٹھاتے خان نے بولتے ہی جھک کر اس کے ہونٹ کو شدت سے اپنی گرفت میں لیا۔
اس کے لمس سے خان کو اپنے پورے وجود میں سکون اترتا محسوس ہوا۔اس کا نچلا ہونٹ اپنے لبوں میں دباتے اس نے ہلکا سا کھینچا پھر آہستہ میں اس میں اپنے دانت گاڑھے۔زمل کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی بے ہوش ہونے والی ہو۔۔
چاقو زمل کی کمر کی طرف لے جاتے خان نے پہلی نازک ڈوری کاٹی تھی۔زمل نے سختی سے خان کے کندھے کو دبوچا تھا۔جو اب بھی زمل کا سانس اپنی دسترس میں لیے ہوئے تھے۔
*******
Sneak Peek:2
میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔ یزدان خان نے صاف بات کی تھی اسے گھما پھرا کر باتیں کرنا پسند نہیں تھا یزدان کی بات پر غصے سے زرش کا چہرہ سرخ پڑا تھا
مجھے آپ سے یا کسی سے بھی کوئی نکاح نہیں کرنا۔۔۔ وہ دبا دبا سا چیخی تھی۔۔ مجھے ابھی اور اسی وقت یہاں سے جانے دیں۔۔۔زرش سے اسے ایسے ہی کسی جواب کی امید تھی وہ جانتا تھا وہ عام لڑکیوں سے مختلف ہے وہ خاص ہے لیکن اب وہ خاص لڑکی صرف اور صرف یزدان خان کی تھی ۔۔۔
نام کیا ہے آپ کا ؟؟! زرش کی بات کو اگنور کرتے اس نے تحمل سے پوچھا تھا اسے ابھی تک ززش کے نام تک کا علم نہیں تھا کیسا شخص تھا دو دن سے وہ اس کی قید میں تھی دو سال سے وہ اس کی محبت میں پاگل تھا مگر ابھی تک اس کے نام کو جاننے سے محروم تھا
زرش نے غصے سے اپنی چادر پر گرفت مضبوط کی تھی اور غصے سے اس کو گھورا تھا مگر پھر وہ اپنے غصے پر قابو کرتی بولی تھی
بھائی آپ کو خدا کا واسطہ پلیز مجھے جانے دیں آپ کو ہزاروں لڑکیاں مل جائیں گی۔۔۔
اس کی منہ سے خود کے لیے ایک بار پھر بھائی لفظ سن کر یزدان کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا اس نے اب کی بار خود اسے غصے سے گھورا تھا
پہلی بات زما زڑگیہ (میرے دل ) کہ میرے علاوہ دنیا کے سب لوگ آپ کے بھائی ہیں اور فلحال آپ کے لیے بھی میرے دل میں کوئی بہن چارا نہیں ہے اس لیے بہتر کہ میرے ساتھ نکاح کرلیں اس کے بعد آپ جہاں کہیں گی میں آپ کو لے جاؤں گا۔۔۔ یزدان کی بات پر اس نے اپنے دانت پیسے تھے اسے زما زڑگیہ کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا ورنہ وہ ضرور یزدان کو کھڑی کھڑی سنا دیتی۔
مجھے منظور ہے لیکن نکاح کے بعد میں فورا اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ زرش نے سوچ کرجواب دیا تھا اس روم میں رہ کر وہ یہاں سے کبھی نہیں نکل سکتی تھی
بالکل رات کو نکاح کے فورا بعد میں آپ کو آپ کے گھر والوں سے ملوانے لے جاؤں گا اب اپنا نام بتا دیں۔۔۔ یزدان نے آخر میں ایک بار پھر سے اس سے نام پوچھا تھا اس کا نام اب معلوم کروانا اس کے لیے مشکل نہیں تھا مگر وہ سب کچھ زرش سے جاننا چاہتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اس سے بار بار نام پوچھ رہا تھا
زرش۔۔۔ اس نے سرگوشی نما آواز میں اسے اپنا نام بتایا تھا
" زرش یزدان خان " یزدان اس کا اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر نام منہ میں بڑبڑاتا ہوا دلفریبی سے مسکرایا تھا اور ایک نظر اس کی گہری کالی آنکھوں میں دیکھ کر وہاں سے چلا گیا تھا
Must read and give feedback ,
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel
Click Here To Download Link
1 Comments
My girl' I like this novel
ReplyDelete