Sneak Peek:1
"فرصت مل گئی بیوی کا فون اٹھانے کی"—ضرغام خان کے کال ریسیو کرنے پر عقیدت نے دانت پیس کر کہا تو دوسری جانب اپنی چھت پر کھڑے ضرغام خان نے گہری سانس فضا کے سپرد کی
جبکہ نظریں روشنیوں میں نہائی شاہ حویلی پر مرکوز تھی—جو کافی فاصلے پر ہونے کے باوجود بھی اپنی آب و تاب روشنیوں سے جھلماتی یہاں تک نظر آرہی تھی
"فون کیوں کیا ہے—کل آ تو رہا ہوں تمہیں ہمیشہ کے لیے لینے"—نظریں حویلی سے ہٹا کر آسمان پر نظر آتے چاند پر ٹکائے مدھم لہجے میں جواب دیا تو عقیدت شاہ نے گھور کر موبائل فون کو دیکھا
"میں نے سنا ہے تم نے مہندی کی رسم سے منع کر دیا—سبھی انتظام ہونے کے باوجود بھی کوئی رسم نہیں ہوئی خان حویلی میں—اگر شادی انتقام کے لیے بھی کر رہے ہو—تو تمہارا بنتا ہے دھوم دھام سے شادی کرنا—مگر یہ رسمیں نا کر کہ تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہو ضرغام"--- عقیدت کے سنجیدہ لہجے کو سن ضرغام خان نے اپنے ماتھے کو سہلایا
"میرا میٹر پہلے ہی گھوما ہوا ہے—یہ بار بار انتقام اور دشمنی کی گردان کرنا بند کرو عقیدت—نہیں پسند مجھے یہ فضول کی رسمیں—جو ضروری تھا وہ میں کر رہا ہوں"—سرد لہجے میں ایک ایک لفظ چبا کر کہا تو عقیدت شاہ کی مترنم ہنسی گونجی جسے سن ضرغام خان کو اپنے رگ و پے میں سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا
"یہ فضول ہے—اور وہ جو تم نے ایک ہی ڈیزائن کے سات رنگوں میں ڈریس بھیجے ہیں—وہ فضول خرچی نہیں ہے--- اور پھر ہر کلر کے ساتھ میچنگ جیولری وغیرہ یہ تمہیں فضول خرچی نہیں لگی"—
"اپنی بیوی پر لٹانا فضول خرچی نہیں بلکہ یہ محبت کے اظہار اور اس کی پرواہ کرنے کو ظاہر کرتا ہے—یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے—یہ دولت میں نے قبر میں لے کر نہیں جانی—نا ہی میں نے پیٹ میں خزانہ جمع کرنے والی مشین فٹ کی ہے—
اب کماتا ہوں تو اپنی بیوی بچوں پر ہی خرچ کروں گا نا—اب میرا سر نا کھاؤ فون رکھو"--- ضرغام خان کے جھنجھلا کر کہنے پر عقیدت نے اپنی مسکراہٹ بامشکل ضبط کی
"اچھا دماغ نہیں کھاتی—مگر تمہیں کھا جاؤں تو کوئی اعتراض تو نہیں"—عقیدت شاہ کی شوخی میں ڈوبی آواز کو سن ضرغام خان کا دل بے ساختہ دھڑکا
"کل یہی بات ہمارے بیڈروم میں کرنا تب اس کا عملی طور پر جواب دوں گا"--- قدم سیڑھیوں سے نیچے کی جانب بڑھاتے ہوئے جواب دیا تو عقیدت نے سمجھنے کے انداز میں سر اثبات میں ہلایا
"ویسے ہو کہاں تم—میں ڈیرے پر آجاتی ہوں—وہاں بھی تو تمہارا روم ہے نا—وہاں آکر کہہ دیتی ہوں—کل تک انتظار"—ابھی عقیدت آہنی بات مکمل کرتی کہ فون سے ضرغام خان کی سرد آواز گونجی
"ٹانگیں توڑ دوں گا اگر تم حویلی سے باہر بھی نکلی—ڈیرے پر سارے خاندان کے مرد جمع ہے— اگر کسی کی نظر بھی تم پر پڑی تو اس کے ساتھ اپنے انجام کے لیے بھی تیار رہنا—
اور ابھی چپ چاپ سو جاؤ کیونکہ کل سے ویسے بھی تمہاری نیندیں اڑنے والی ہیں"—سخت لہجے میں کہہ کر کھٹاک سے فون بند کیا تو عقیدت نے سختی سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر موبائل کو پوری شدت سے دیوار میں مارا
"کھڑوس شخص—تمہارے میٹر کو تو میں آکر ہی سیٹ کروں گی"—دانت پیس کر کہتے ایک نظر موبائل کی ٹوٹی سکرین پر ڈال کر اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی کو دیکھا
جو کہنیوں سے لے کر ہاتھوں تک بھر بھر کر لگائی گئی تھی
مہندی میں چھپے ضرغام خان کے نام کو دیکھ عقیدت نے گہری سانس بھرتے قدم بیڈ کی جانب بڑھائے
Sneak Peenk:2
روشنیوں سے سجے لان کے ایک کونے میں کھڑی وہ میرون رنگ کے عروسی لباس میں پور پور سجی-- آنکھوں میں نفرت کی آگ لیے چہرے پر سپاٹ تاثرات سجائے
نظریں سامنے سٹیج پر بیٹھے مغرور شخص پر ٹکائے
فون پر کسی سے محو گفتگو تھی
"کیوں خوامخواہ کی دشمنی مول لے رہی ہو-- جو جیسے کرتا ہے کرنے دو-- ہمارے پاس پہلے ہی بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ہے
اب تم اس خاندانی دشمنی کا بھی حصہ بن رہی ہو"-- موبائل سے قدری جھنجھلائی ہوئی آواز گونجی
تو لڑکی کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ رینگ گئی
"یہ نفرتیں یہ دشمنیاں تو وراثت میں ملی ہیں-- اور وراثت میں ملی ہوئی چیزوں کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے-- ہم جتنا بھی انکار کریں-- مگر لوگ جانتے ہیں کہ وراثت ہماری ہے-- کوئی دولت نہیں جسے انکار کروں گی تو ماہان کہلاؤ گی--- دشمنی ہے یہ
انکار کرو گی تو بزدل کہلاؤ گی
قبول کروں گی تو ایک نا ایک دن جیت جاؤ گی-- یا اس دشمنی کو نبھاتے نبھاتے مر جاؤں گی"
اچھا چھوڑو وہ تمہاری سوتیلی ساس نے نمبر لیا تھا
کیا بات ہوئی تمہاری ان کے ساتھ-- فون پر موجود شخص نے بات بدلتے ہوئے کہا مگر وہ نہیں جانتا تھا اگلی بات پر وہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے گا
"کچھ نہیں انہوں نے مجھے کہا-- اتنی اکڑ اور غرور کس بات کا-- تو میں نے سمپل سا جواب دیا کہ خاندانی عادت ہے غرور اور اکڑ کی -- اب خون میں یہ سب شامل ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں-- پھر مجھے برا بھلا کہہ کر فون رکھ دیا"-- لڑکی کے کندھے آچکا کر کہنے پر فون پر دوسری جانب شخص نے سچ میں اپنا سر پکڑ لیا
تم پاگل ہو جانتی بھی ہو-- وہ عورت کس قدر واویلا مچائے گی اس بات پر کہ تم نے خاندان والوں کو طعنہ دیا"-- دانت پیس کر کہا گیا مگر ادھر پرواہ ہی کسے تھی
"اور تمہارا شوہر اس نے کچھ کہا"-- لہجے میں تجسس سموئے استفسار کیا تو لڑکی نے سامنے سٹیج پر بیٹھے موبائل پر مصروف شخص کو دیکھا
جو اپنی مغرورانہ پرسنیلٹی اور مردانہ وجاہت کے باعث پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا
" ہاں کہا نا-- یارِ من نفرتوں کی دنیا میں خوش آمدید" ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے سر جھٹکے جواب دیا تو دوسری جانب موجود شخص نے اپنے ہونٹ بھنچے
"تمہیں پتہ ہے وہاں تمہارا سب سے بڑا دشمن کون ہے"--
"میرا شوہر" یک لفظی جواب دے کر اپنی جانب بڑھتے-- اس شخص کو دیکھا جس کی آنکھوں اور ہونٹوں پر رینگتی مسکراہٹ اس کی جیت کا پتہ دے رہی تھی اور وہ مضبوط قدم لیتا اپنی ٹائی کو اتارتا اسی کی جانب آرہا تھا
Sneeak peek:3
کیا بتمیزی ہے یہ خان"--- کچن کے پچھلے جانب بنے چھوٹے سے سٹوروم کے قریب پلر کے ساتھ حوریہ کو لگاتے اپنے ہاتھ اس کے اردگرد رکھے تو حوریہ نے اس اچانک افتاد پر سنبھلتے سخت لہجے میں کہا تو عائث خان نے گھور کر حوریہ کو دیکھا"اور وہ کیا بتمیزی تھی جو تم نے ٹیبل پر کی--- میرے دیکھنے پر نظریں کیوں پھریں ہاں"--- ایک ہاتھ حوریہ کے سر کے قریب اوپر رکھتے دوسرے ہاتھ سے حوریہ کی تھوڑی تھامے سخت لہجے میں کہا تو حوریہ نے گھور کر عائث خان کو دیکھا"اب آپ کیا چاہتے ہیں میں وہاں سب کے درمیان بے شرموں کی طرح آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھ جاتی"—حوریہ کے جھنجھلا کر کہنے پر عائث خان نے سختی سے اپنے جبڑے بھنچے"زیادہ زبان درازی مت کرو--- ایک بات کان کھول کر سن لو--- جب میں تمہاری طرف دیکھو تو تم پر فرض ہے کہ تم میری آنکھوں میں دیکھو— تمہیں لوگوں کے ہونے یا ہونے سے فرق نہیں پڑنا چاہیے—تمہیں صرف اس بات سے فرق پڑنا چاہیے—کہ تمہارا شوہر کیا چاہتا ہے"--- حوریہ کے چہرے پر ہاتھ کی پشت پھیرتے گھمبیر لہجے میں کہا تو حوریہ نے ہونٹ کا کنارہ دانتوں تلے دباتے عائث خان کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھا"اور اپ کیا چاہتے ہیں"--- ہونٹوں سے بے ساختہ ادا ہوئے لفظوں پر حوریہ کا دل کیا ماتھا پیٹ لے--- وہ اس مسینے خان کی سب چاہتوں سے واقف تو تھی اور اب اپنے سوال پر عائث خان کے ہونٹوں پر رنگتی معنی خیز مسکراہٹ دیکھ حوریہ کو اپنی جان ہوا ہوتی محسوس ہونے لگی."تمہیں نہیں پتہ کہ میں کیا چاہتا ہوں"--- معنی خیز نظروں سے حوریہ کے ہوش ربا سراپے کو دیکھتے ہونٹ کا کنارہ دانتوں تلے دبا کر سرگوشی کی تو حوریہ کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی"نن—ہیں مجھے عقیدت لالی بلا رہی ہیں شاید میں"—نفی میں سر ہلاتے وہاں سے جانے کے لیے ہر تولے تو عائث خان نے شہادت کی انگلی حوریہ شاہ کے باریک گلابی ہونٹوں پر رکھی"ہشش—چاہتیں تو بہت ہیں میری—اور سبھی تم سے وابستہ ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم ان سب سے واقف ہو—مگر فلحال میں تمہاری نازک سی جان کو زیادہ مشکل میں نہیں ڈالوں گا—بس تھوڑا سا اپنے حق میں سے حصہ چاہئے"—حوریہ کے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ لاتے بوجھل لہجے میں سرگوشی کی تو عائث خان کی دہکتی سانسوں کی تپش اور بولنے کے باعث ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں پر محسوس کرتے حوریہ کا دل بری طرح دھڑکا تھا"عع—عائث کک-کوئئ اجائے گا"—کپکپاتے ہاتھ عائث خان کے سینے پر رکھتے—دیوار کے ساتھ چپکتے—چہرے کا رخ بدلتے التجائیہ لہجے میں کہا تو عائث خان نے جواب دیے بغیر اپنے ہونٹ حوریہ کے گال پر شدت سے ثبت کیے---سینے پر دھڑے حوریہ کے ہاتھوں کو اپنی سخت گرفت میں لیتے—جھٹکے سے حوریہ کو قریب کرتے اپنے سینے سے لگا کر حوریہ کے ہاتھ پشت پر باندھے"آئی ڈونٹ کئیر— آئی وانٹ ٹو فیل یو—رائٹ ناؤ اینڈ ڈیٹس اٹ"--
Must read and give feedback ,
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.
Click Here To Download Link
0 Comments