hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group. And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.
Sneak Peek:1
تو۔۔ حق چاہیے۔۔ بیوی کا تمہیں۔۔؟؟ معنی خیزی۔۔۔سے کہتا وہ اسکی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔ لیکن امامہ ایک لمحے کو بھی پیچے نہ ہٹی۔ اور نہ ہی ڈری تھی۔
آپ کے پاس دینے کو کیا ہے۔۔؟؟ سواۓ دھتکار۔۔ اور نفرت کے۔۔؟؟ دوبدو جواب دیتی اس بار وہ واقعی ازہان کو بری طرح چونکا گٸ۔
وہ اسے جو سمجھ رہا تھا۔ یہ وہ نہ تھی۔۔۔ یہ کوٸ عام لڑکی نہ تھی۔
تم جانتی ہو۔۔۔تمہارے بھاٸ نے ۔۔ کیا لیا ہے۔۔ ؟ حق مہر میں۔۔؟؟ ماتھے پے تیوتی ڈالے اب اسکی تذلیل کا ارادہ کیا۔
جی۔۔۔۔!بالکل۔...! کیا کم ۔۔ لکھوایا ہے۔۔؟؟ جو آپ پوچھ رہے ہیں۔۔؟؟ امامہ نے بی اسی کے اندازمیں پوچھا۔
زبان تو بہت چلتی ہے۔۔۔ کاٹنی پڑے گی۔
ازہان غصہ سے اسکی طرف بڑھا۔اور اسکے بالوں سے پکڑ کے اسکا سر اونچا کیا۔
لیکن ہوہیں پتھر کا ہوگیا۔ اسکی گہری سبز رنگ آنکھیں اس میں لال ڈوری۔ وہ اسکا دل جیسے بہکنے لگا۔۔ بغاوت پے اتر آیا ہوا۔ اچانک سے نظریں اسکے گلابی لبوں پے جا ٹکیں۔ جو لرزتے ہوۓ اپنی ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے تھے۔
اسکا یہ روپ ازہان کے حواسوں پے چھانے لگا۔
اور وہ یہی نہیں چاہتا تھا۔ اسے جھٹکا دے کے پیچھے کرنے لگا۔ کہ اچانک سے نظر اسکی شہ رگ کے تل پے جا اٹکی۔
اب ازہان کا دل و دماغ اسکے بس میں نہ رہا تھا۔ وہ اسکی شہ رگ پے جھکا۔ اس تل کو اپنے ہونٹوں سے چھونے لگا۔ کہ اگلے ہی پل اس نے خود پے قابو پایا۔ اور زور سے امامہ کو پیچھے دھکا دیا۔ کہ وہ بیڈ پے جا گری۔
تمہیں کیا۔۔ لگا۔۔؟؟ ازہان خانزادہ۔۔ اپنے سچے جذبے تم پے نچھاور کرے گا۔۔۔؟؟ کبھی نہیں۔۔۔
لہجے میں صرف حقارت تھی۔ امامہ بس یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔اور سر جھک گیا۔
تم۔۔ مر کے بھی دوبارہ زندہ ہوجاٶ۔۔تب بھی ازہان خانزادہ کو تسخیر نہیں کر سکو گی۔
کہتے وہ غرور سے پلٹا۔
اگر۔۔ ہم۔۔ آپ کو قبول ہی نہیں تھے تو آپ نے ہم سے شادی کیوں کی۔۔۔؟؟
سر جھکاۓ اپنے آنسوٶں پے بندھ باندھتے وہ آخر سوال کر ہی بیٹھی۔ جو کل سے سوچ رہی تھی۔
مجبوری۔۔۔۔! دانت پیستے وہ پلٹا تھا۔ اسکی طرف ۔ اور امامہ کا جھکا سر اٹھا تھا۔
مجبوری۔۔۔۔؟؟؟ امامہ کو اپنی آواز بھی اب سناٸ نہ دے رہی تھی۔
ہاں۔۔ مجبوری۔۔۔۔ اور بہت جلد۔۔۔ اس مجبوری کے ختم ہوتے ہی تمہیں اس منشن سے نکال باہر کروں گا۔
ازہان نے بنا کسی لحاظ کے امامہ کو کھری کھری سنا دیں۔
امامہ اپنی جگہ سے اٹھتی ہوٸ ازہان کے پاس آٸ۔
مکبوری آپ کی ختم ہو یا نہ ہو۔۔۔؟؟
لیکن آپ ۔۔۔ہمیں۔۔ اس منشن سے باہر نہیں نکال سکتے۔۔۔۔ !
ایک ایک لفظ ے زور دیتے کہا۔ ازہان کے غصہ سے اسے دیکھا۔
یہ تو وقت طے کرے گا۔۔۔ کیونکہ ازہان خانزادہ نے ہارنا سیکھا ہی نہیں۔۔۔
امامہ حاکم نے زندگی میں صرف جیت دیکھی ہے۔۔ خان۔۔۔آپ ہمیں چیلنج مت کریں۔۔۔! ورنہ بہت پچھتاٸیں گے۔
امامہ کی بات پے ازہن نے اسے دونوں بازوٶں سے تھاما ۔ اور خود کے قریب کیا۔
تم میرے لیے کوٸ معنی نہیں رکھتی۔۔۔ صرف کچھ عرصے کی بات ہے۔۔ تمہارا وجود مجھے۔۔ اس کمرے میں بردشت کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ۔۔۔؟؟
آپ ۔۔ہمارے عادی ہوجاٸیں گے۔ خان۔
امامہ نے اسکی بات اچکتے اسکی آنھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا ۔ کچھ پل خاموشی چھا گٸ۔
اس وقت کے آنے سے پہلے میں موت کو گلے لگانا زہادہ پسند کروں گا۔
سخت لہجہ سخت الفاظ۔ مرنے کی بات پے امامہ کے دل کی دھڑکن رکی تھی۔
اللہ نہ کرے۔۔۔ آپ کو ہماری زندگی بھی لگ جاۓ۔
امامہ نے دل سے کہا۔ اسکے سچے جذبے سے کہے الفاظ پے ازہان اس پاگل لڑکی کو دیکتا رہ گیا۔ جو ایک طرف اس سے چیلنج کرنے کے موڈ میں تھی۔ تو دوسری طرف اسکے مرنے کی بات پے تڑپی تھی۔
جب تک۔۔ اسکمرے میں ہو۔۔۔مجھ سے دور رہنا۔۔۔! ازہان نے اسے پرے دھکیلتے ہوۓ دور ہوتے کہا۔
Sneak Peek:2
کیوں۔۔۔ کیوں۔۔قید کیا ہے۔۔؟ مجھے یہاں۔۔۔؟ ڈر تو تھا لیکن ہمت کرتے پوچھا۔
وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پاکٹس میں ہاتھ ڈالے دور ہوا ۔
کچھ ڈیمانڈس ہیں میری۔۔ تمہارے بھاٸ سے ۔ پوری ہوتےہی تمہیں چھوڑ دوں گا۔ دیوار کی طرف رخ کیے وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔
کیسی۔۔۔؟؟ ڈیمانڈ۔۔۔؟؟ دیکھو۔۔؟؟ تمہیں پیسے چاہیے ناں۔۔ ! تم میرے بھٸ سے جتنےپیسےکہو گے وہ تمہیں دے دیں گے۔۔ پلیز تم۔مجھے چھوڑ دو۔۔۔! کہتے ہوۓ رخسار کے گالوں پےآنسو بہہ ہی گۓ۔
مجھے جو چاہیے۔۔۔ وہ میں حاصل کر ہی لوں گا۔۔۔! تم۔بس۔۔ سکون سے رہو یہاں۔۔! اب کی بار وہ پلٹ کے بولا۔ تو رخسار کو غصہ آیا۔
تمہاری ڈیمانڈ پیسےہی ہیں۔۔تو مانگ لو۔۔۔ جتنے چاہیۓ۔۔ میرا بھاٸ میرے پے سب وار دے گا۔۔۔! رخسار نے بہت مان سا کہا۔
یہی تو دیکھنا ہے۔۔! کہ وہ اپنی زندگی وارتا ہے۔۔ یا نہیں۔۔؟؟ اس شخص کے پراسرار انداز پے رخسار اندر تک سہم گٸ۔
میرے بھیا۔۔۔؟؟؟ تم انہیں مارنا۔۔۔ چاہتے ہو۔۔۔؟؟ رخسار کویقین نہ آیا۔۔۔
میں کیا چاہتا ہوں کیا نہیں۔۔۔؟تم اپنے چھوٹے سے دماغ و تنگ مت کرو۔۔ چپ چاپ کھانا اور سو جاٶ۔۔ !
مجھے یہاں سے جانا ہے۔ اپنے گھر۔۔۔! اگر تم نے مجھے نہ جانے دیا تو۔۔۔میں۔۔ ٕیہاں سے بھاگ جاٶں گی۔ سنا تم نے۔۔۔۔! رخسار چلاٸ تھی۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔ بھاگ جانا ۔۔۔! مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ وہ جیب میں ہاتھ ڈالے تمسخر اڑاتے ہنسا تھا۔
تم جانتی بھی ہو۔۔تم کہاں ہو۔۔۔؟؟ اب کی بار وہ اس کی طرف پیش قدمی کرتے سرد لہجے میں بولا۔
رخسار ساکت نظرں سے اسے دیکھنے لگی۔
شہر سے بہت ہی دور۔۔۔۔ ایک گھنا جنگل۔۔۔۔ اور جنگل کے بیچوں بیچ۔۔ ایک کاٹیج۔۔۔! جہاں اس وقت تم ہو۔۔۔!
تم شور مچاٶ۔۔ چنیخو چلاٶ۔۔۔ کوٸ نہیں سننے والا۔
Sneak Peek:3
امل شاورلینے کے بعد ڈریسنگ کے سامنے کھڑی فراک کی ڈوریوں سے الجھی ہوٸ تھی۔ اور بند کرنے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوۓ جا رہی تھی۔
بستر پے نیم دراز شہروز نے پیر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ اسکا نکھرا نھرا وجود شہروزکے حواسوں پے چھانے لگا تھا۔
بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھتا وہ امل ے پاس آتا اسکے بالوں کو کندھے سے ایک طرف سے آگے کرتا وہ اسکی ڈوریوں کو باندھنے لگا ۔
آٸینے میں وہ شہروز کو دیکھتی لرزی تھی۔ اسکے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا۔
وہ ڈوری بند کرتا ایک دم سے رکا تھا۔ اسے امل کی کمر پے ایک نشان نظر آیا تھا۔ جو لندھے سے تھوڑا سا نیچے تھا۔
آٸینے میں امل کے چہرے کے تاثرات دیکھتا وہ اسکا لرزنا بھی محسوس کر گیا تھا۔
ڈوریاں بند کی ہوٸ دوبارہ کھول دیں۔ امل کا اپنے پاٶں پے کھڑے رہنا مشکل ہو رہا تھا۔
زرا سی فراک سرکاٸ تو نشان واضح ہو گیا۔
وہ بہت گہرا نشان تھا۔
اگر تمہیں میری بات پے یقین نہیں۔۔ تو اپنی بیوی کی کمر پے وہ نشان دیکھنا ۔۔ جو اسے مجھ سے ملا تھا۔۔۔ ! تمہیں۔۔ حقیقت کا پتہ چل جاۓ گا۔
شہروز کے کانوں سے اس شخص کی آواز ٹکرٸ۔ اس کے بعد وہ شخص کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہا تھا۔
اس شخص کی بات کو جھٹلاتا اب وہ اپنے سامنے وہ نشان دیکھتا اسکے دماغ کی رگیں تنیں تھیں۔
یہ نشان کیسا ہے؟ امل۔۔۔؟؟
انتہاٸ خطرناک سنجیدگی سے پوچھا۔ اور اسکا رخ اپنی طرف کیا۔
وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔ جل۔۔۔ جل گیا۔۔۔ تھا۔۔۔!ہکلاتے ہوۓ جواب دیا۔جبہ نظرں جھکی ہوٸی تھیں۔
کیسے۔۔۔؟؟ اگلا سوال بنا پلک جھپکے پوچھا گیا۔
امل نے سر اٹھا کے شہروز کو دیکھا۔۔
بہتت۔۔۔۔ پرانا۔۔۔نشان ہے۔۔۔۔! یاد نہیں۔۔۔! امل سے بات نہ بن پار ہی تھی۔
شہروز نے بنا تاثر کے اسکے چہرے کے اتار چڑھاٶ کو دیکھا۔
امل۔۔۔۔! کیسے جلا۔۔۔؟؟؟ اب کی بار زور دیتے پوچھا۔ جبکہ امل کی بازوٶں پے انگلیوں کی گرفت سخت ہوٸ۔
شششہر۔۔۔۔ر! نننہیں۔۔۔ یاد۔۔۔۔! امل کی آنکھیں آنسوٶں سے تر ہوٸیں۔
اسی لمحے دروازے پے دستک ہوٸ۔
دونوں چونکے۔ لیکن شہروز اپنی جگہ سے نہ ہلا۔
امل نے آگے بڑھنا چاہا۔ لیکن شہروز نے اسے واپس اپنی طرف کھینچا۔
امل۔کو اس سے خوف سا محسوس ہوا۔ لیکن اس بار وہ کچھ نہ بولا۔
امل کا رخ دوسری طرف موڑے۔ غصہ سے اسکی فراک کی ڈوریوں کو بند کرتا وہ وہاں سے ہٹتا باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ امل گہرا سانس خارج کرتی دوپٹہ اوڑھتی دروازہ کھولنے لگی۔
Must read and give feedback ,
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.
Click Here To Download Link
0 Comments