Latest

6/recent/ticker-posts

Shiddat e Talab by suneha rauf Complete PDF

 


I hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group.  And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.

Sneak Peek:1

تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے یہ سب چھپانے کی۔۔۔۔؟

اس کے چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے جھٹکے سے اونچا کرتے کہا۔

کیا چھپایا ہے میں نے۔۔۔۔۔اس کا دل لرزا۔۔۔۔۔تو کیا وہ جان گیا تھا۔۔۔۔۔

کیا یہ میری اولاد نہیں ہے۔۔۔۔؟وہ غرایا۔۔۔

درید۔۔۔۔۔اس نے بے یقینی سے اپنا آپ اس سے چھڑوانا چاہا۔۔۔

میری اولاد ہے نا تو تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔۔تم تو مجھے اب بھی نہ بتاتی اگر مجھے ڈاکٹر سے پتا نہ چلتا۔۔۔۔

ہاں نہیں بتاتی۔۔۔۔میں کیوں بتاتی اس شخص کو۔۔۔۔جو ایک بار پھر مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔کیا لینے آئے تھے۔۔۔۔کیوں وہ دن میرے نام کیا اور پھر چلے گئے۔۔۔۔مجھے موت کا پروانہ سنا کر۔۔۔۔میں کیوں بتاتی آپ کو۔۔۔۔کس حق سے۔۔۔۔کیا شوہر ہونے کا کوئی فرض ادا کیا ہے آپ نے اب تک۔۔۔۔۔وہ چلائی۔۔۔۔

چلو۔۔۔۔۔۔اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور اس پر چادر ڈالی اور باہر نکلا اور گاڑی میں اسے بٹھایا۔۔۔۔۔

میم کو گھر چھوڑ کر آؤ اس نے باہر کھڑے گارڈ کو کہا تو ربائشہ نے اسے افسوس سے دیکھا۔۔۔۔۔

اب میں نہیں آؤں گی درید کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہتے گاڑی کا شیشہ اوپر کیا۔

.................. 
Sneak Peek:2

"اس کے ساتھ جو ہوا اس کے بارے میں مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں لیکن باسط ضیاء تم میرے ساتھ یہ سب نہیں کر سکتے" اس نے آنکھوں کی سرخی کو کم کرنے کی کوشش کی۔

"تمہارے بھائی نے میری معصوم بہن۔۔۔۔۔۔جو لاڈلی تھی میری بے حد اس کے ساتھ ایسا کیا ہے رباب یزدانی۔"

"تو ان سب میں میں کیوں گھسیٹی جا رہی ہوں وہ خود آئی تھی میں نے تو نہیں۔۔۔۔۔۔"

آہ۔۔۔۔اپنے ہاتھ پر ہلکی سی جلن محسوس کرتے اس نے اسے دیکھا جس نے سیگریٹ ہلکا سا اس کے ہاتھ پر رکھا تھا اور پھر اسی سگریٹ کا دھواں ہوا میں معتل کیا تھا۔

"بکواس نہیں۔۔۔۔۔! 

وہ کہتے ہیں نا انسان اپنے گناہوں کی سزا اپنے قریبی لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر چکاتا ہے تو بس یہی سمجھ لو۔"

"وہ تمہاری سگی بہن تو نہیں تھی۔۔۔اس نے ہچکی لیتے کہا۔۔۔۔"اس انجانے وجود سے اسے نفرت سے محسوس ہو رہی تھی۔

"وہ اولاد جیسی تھی میری۔۔۔۔میری چھوٹی بہن۔۔۔۔میں نے اس کا ہر لاڈ اٹھایا ہے صرف اس لیے کہ وہ محرومیوں میں زندگی گزارتی آئی ہے کہیں زندگی سے ہار نہ مان لے اور ۔۔۔۔۔

دیکھو تمہارے بھائی نے اسے ایسا ہرایا ہے کہ اب وہ اٹھ نہیں پا رہی۔"

خیر ۔۔۔۔۔

"ایک آخری بار رشتہ بھیج رہا ہوں۔۔۔۔اب کی بار نہ نہیں ہونی چاہئے رباب ضیاء۔۔نہیں تو۔۔۔۔"

"نہیں تو کیا ۔۔۔۔؟؟؟"

"نہیں تو کیا نام تھا تمہارے اس بوائے فرینڈ کا ۔۔۔۔۔۔امم۔۔۔۔۔فادی ہاں اس کی بہن کو اٹھوانے، اس کے باپ کے شیئرز کو خریدنے اور اس کی ماں کا این جی او بند کروانے اور ہاں اسے اس یونیورسٹی جہاں صاحب زادے سکارلر شپ پر پڑھ رہے ہیں کیونکہ یہاں کی فیس ادا کرنا ان کے بس کا روگ نہیں اسے یہاں سے سسپینڈ کروانے میں مجھے زرا وقت نہیں لگے گا۔"

" تم ایسا نہیں کرو گے ضیاء" اس نے اس کا کارلر تھامتے چیختے کہا۔

باسط ضیاء نے ایک نظر اس پر ڈالی اور اس کے چھوٹے ہاتھوں پر جو اس کا کارلر تھامے ہوئے تھے۔

ان آنکھوں کی سرخی اور دماغ کی رگیں دیکھتے رباب نے اس کا کارلر چھوڑتے ایک قدم پیچھے لیا تھا۔

وہ گرتی کہ اس شخص نے اس کی کلائی تھمامی اور اسے گرنے سے بچایا۔۔۔۔۔

اس کا لمس محسوس کرتے وہ جی جان سے کانپی تھی۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں کی سرخی اسے کانپنے پر مجبور کر دیتی تھیں کجا کے لمس۔۔۔

اسے کھڑا کرتے وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا تھا اور اسے جانے کا اشارہ کرتے دراوزے کی طرف دیکھا۔۔۔۔جیسے ایک مالک اپنے قید کیے پرندے کو رہا ہونے کی نوید سنا رہا ہو۔

وہ مُڑی اور ایک قدم ہی آگے بڑھایا تھا کہ اس شخص نے اپنا پاؤں آگے کرتے اسے زمین بوس کیا تھا۔

"باسط ضیاء کے کارلر تک جانے کی ہمت کا ایک چھوٹا سا انجام۔۔۔۔۔۔"اس نے اپنے کارلر سے نامعلوم گرد کو جھاڑتے کہا۔

مستقبل ترین میں ہونے والی بیوی صاحبہ اب کی بار رشتہ ٹھکرانے کا مزاق نہ کیجیے گا نہیں تو باسط ضیاء اب کی بار ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے گا ۔۔۔زمین پر اس کے پاس جھکتے اس کے گال کی طرف ہاتھ بڑھائے لیکن کچھ سوچتے ہٹا لیے اور پراسرار مسکراہٹ اسے دیتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Must read and give feedback ,

click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.

Click Here To Download Link

Complete Download Link

Post a Comment

0 Comments