Latest

6/recent/ticker-posts

Eid e deed e yaar by Suneha Rauf Complete PDF

 


I hope you guys are doing well and living a prosperous life.We have a great opportunity for you guys that every one can hone their skills.The specialty of our website is that we are committed to advancing these people.Those who have magic in their hands, who once pick up the pen, then keep it after doing something.This website is and will be step by step especially for new writers and supporting you guys in every way in advancing good ideas.Only Novels Lover in web category Novel Romantic novel wani based novel, lover story based novel, rude hero innocent hero based novel, four married based novel gangster based novel kidnapping based novel.This is the specialty of our group.  And most of all you will find the admins here very supportive and respectful.And will treat you very lovingly.

Sneak Peek:1

حاد نے اسے جھٹکے سے اس شخص کے شکنجے سے دور کیا تھا۔

تیری ہمت کیسے ہوئی اِس کو ہاتھ لگانے کی۔۔۔۔انہیں یہاں سے نکلنا تھا لیکن حیات کو اس شخص کے شکنجے میں دیکھ وہ اپنا آپا کھو بیٹھا تھا۔

بیوی تھی میری یہ ۔۔۔۔وہ تو سالہ غلطی ہو گئی مجھ سے نشے میں نہیں تو آج بھی یہ زندگی رنگین۔۔۔۔۔۔

حاد نے اس کے چہرے کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔

حاد۔۔۔۔حیات نے کانپتی آواز میں اسے روکنا چاہا تھا

دور کھڑی ہو جاؤ۔۔۔اب کی بار قریب آئی تو تمہیں جان سے مار دوں گا حیات کو دیکھتے وہ چیخا تھا۔

میری بیوی ہے یہ میری۔۔۔۔۔سنا تو نے میجر میر حاد رضوان کی ہے ۔۔۔۔حیات حاد رضوان ہے یہ۔۔۔۔اپنی زبان سے اگلی بار نام بھی مت لینا اس کا۔۔۔اس کو ٹھوکریں رسید کرتا وہ پاگل دیوانہ ہی لگ رہا تھا۔

سر یہاں سے نکلنا ہے ہمیں۔۔۔۔۔ہمارے پاس بیک اپ نہیں ہے اس وقت۔۔۔اس کے ساتھی آفیسر نے کہا۔

حاد چلیں۔۔۔۔حیات نے کانپتے ہاتھ سے حاد کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو حاد نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔

وہ گرتی کہ وہی ساتھ آفیسر اسے بازو سے تھام کر گرنے سے بچا چکا تھا۔

حاد نے اسے بھی دھکا دیا۔۔۔۔کہا ہے نا ہاتھ نہیں لگانا اسے۔۔۔اس نے حیات کے آنسو دیکھتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے نیچے گرے شخص کو آخری ٹھوکر رسید کی۔

سامنے کھڑی حیات کا ہاتھ جھٹکے سے تھامتے اسے لے کر آگے بڑھا ۔۔۔حیات کو اس کی انگلیاں اپنی جلد میں دھنستی محسوس ہوئی۔

سر آپ کو ہیڈ آفس جانا ہے اس وقت۔۔۔اس کو اپنی پرسنل گاڑی میں بیٹھتا دیکھ اسے بتایا گیا۔

مجھے مت سکھاؤ۔۔۔۔اس نے کہتے انہیں جانے کا اشارہ کیا تو وہ چلے گئے۔

ان کے جاتے ہی حیات کو اندر دھکا دیتے وہ واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھا ۔۔۔۔گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔

حیات کا خون خشک ہوا۔۔۔اس نے حاد کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔وہ جانتی تھی وہ اس کے معمالات میں پوسیسو ہے لیکن اس حد تک۔

گھر آتے وہ اسے چھوڑتے اندر چلا گیا تھا۔۔۔وہ اندر گئی تو کمرے سے آوازیں سنتے اندر کی طرف دوڑی جہاں وہ آدھی چیزیں توڑ چکا تھا۔

حادددد۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ سے اور کندھے سے خون نکلتا دیکھ وہ چیخی تھی۔

دوسرے کمرے میں جاؤ۔۔۔مجھے ابھی کسی سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔

تمہیں سنائی دے رہا ہے۔۔۔۔؟؟وہ چیخا لیکن وہ اس کے نزدیک آتی بالکل خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔

یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟؟

میں نے کہا نا ابھی مجھے بات۔۔۔۔۔۔۔وہ دور ہوتا کہ حیات نے جھٹکے سے اس کا کارلر تھامتے اس کا رخ اپنی طرف کیا تھا۔

اپنی حالت دیکھی یے۔۔۔میجر میر حاد رضوان۔۔۔۔یہ غصہ کس بات کا ہے ۔۔۔مجھ پر نکال دیں ایک ہی بار ۔۔۔۔

حاد نے اسے دیکھتے آنکھیں بند کر کے اپنے اشتعال کو قابو کرنا چاہا اور پھر جھٹکے سے اسے دیوار کے ساتھ لگاتے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑی۔

تم میرا غصہ برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔کسی دن میری شدتوں سے روبرو ہونا جان جاؤ گی میرا دکھ۔۔۔

کس بات کا دکھ ہے۔۔۔۔اس بات کا کہ میں آپ کی بیوی ہوں یا اس بات کا کہ میں اس شخص کی سابقہ۔۔۔۔

حاد نے اس کے بال مٹھیوں میں بھینچتے اس کا چہرہ اپنا چہرے کے قریب کیا۔

یہ بکواس میں آج تو کیا آئیندہ بھی نہیں سننا چاہوں گا تم سے۔۔۔۔۔نہیں تو اس کی سزا تمہاری سوچ سے زیادہ بڑی ہو گی وہ حیات کے کان کے پاس پھنکارا۔

حیات نے اس کی شرت کے بٹن پر ہاتھ رکھتے جھٹکے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے کندھے کے زخم کا معائنہ کیا تھا۔

آپ کو علاج کی ضرورت ہے۔۔۔۔

کیا میرے دل کو دوا دے سکتی ہو جو تمہارے جسم پر اس شخص کے لمس کو اب بھی محسوس کرتا پاگل ہورہا ہے وہ فرطِ شدت سے چیخا۔

حیات نے اپنے لب اس کے ہاتھ کے زخم پر رکھ کے مسیحائی کی تو وہ خاموش ہو گیا ۔۔

میجر میر حاد رضوان آپ کو انسکیور ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔یہ روح ہر سانس کے ساتھ آپ کے نام کا ورد کرتی ہے اس کے ماتھے سے بال ہٹاتے اپنے لب وہاں رکھتے حیات نے اس کے جلتے دل پر ٹھنڈی پھوار کا کام کیا تھا۔

اس نے تھکی آنکھیں موندتے اس کے کندھے کو جائے پناہ سمجھتے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھا۔

تم سب ہو میرا حیات۔۔۔میرا دل تمہارے لیے پاگل ہے۔۔۔میں کیا کروں تمہارے معاملے میں مجھے خود پر بھی کنٹرول نہیں ہے وہ دھیمے سے بولا تو حیات نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے پرسکون کرنا چاہا۔

Sneak peek:2


عادی کو اپنی عید مل چکی تھی لیکن وہ اس کی لے کر بھاگ گیا تو حور اس کے پیچھے بھاگی۔۔۔

اب وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔۔۔حور نے اچکتے اس کے جیل سے بنائے بال ہاتھ میں پکڑے اور کھینچ ڈالے ۔۔۔

آہ جنگلی بلی چھوڑو۔۔۔۔۔۔😵‍💫

اس نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ ہٹائے اور اس کا بازو موڑ کر قمر کے ساتھ لگایا۔۔۔۔

کسی نے یہ منظر شعلہ بار نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔😡

عید مبارک۔۔۔۔۔۔۔!!!

اس نے اندر آتے کہا اور اس سے نظریں تک نہ ملائی۔۔۔۔۔

حور نے اسے دیکھا۔۔۔۔اسے مہندی بھی دکھانی تھی ابھی اپنی لیکن اس نے ایک نظر بھی اس پر نہیں کی تھی۔

سب سے عید ملتے وہ ناشتے کے لیے بیٹھ گیا تھا۔۔۔حور کا انتظار انتظار ہی رہا۔۔۔۔

دید تو ہو گئی تھی یار کی مگر یہ کیسی عید تھی۔۔۔۔🥺

اس نے نم نگاہوں کو جھکایا تو میر دلاور رضوان نے اسے دیکھا۔

اس کا خود کو تکنا وہ محسوس کر چکا تھا۔۔۔لیکن اس کی حرکت یاد کرتے اس نے جبڑے بھینچے اس کو اور ساتھ بیٹھے عادی کو دیکھا۔

اپنے ہاتھوں کو کنٹرول میں لاؤ عادی۔۔۔۔میں لایا تو تمہیں مسئلہ ہو گا وہ اٹھتا عادی کو بول کر چلا گیا۔۔۔۔۔😤

تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔بھائی نے تمہیں نہیں دیکھا ہونا میرا بال کھینچتے۔۔۔۔عادی نے منہ بسوڑتے کہا تو حور کے علاؤہ سب مسکرائے۔

وہ ناشتے کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔اور اوندھے منہ جا کر بستر پر گر کر رونے لگی۔۔۔🥺

جس کے لیے تیار ہوئی تھی اس نے ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا تھا۔

اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنتے بھی وہ نہیں پلٹی تھی۔۔۔

عادی مجھے ابھی کسی سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔وہ رندھے لہجے میں بولی۔

میر دلاور رضوان نے جھٹکے سے اسے سیدھا کرتے اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔۔اور اس کی آنکھوں کو دیکھا جو رو رو کر ہلکی سوجی تھی۔❤️

کس بات کا ماتم منا رہی ہو۔۔۔۔؟؟اس کے ہاتھ پر گرفت سخت کرتے پوچھا۔۔۔۔

ہاتھ چھوڑیں۔۔۔۔اس نے نگاہیں جھکائے ہی کہا۔۔۔۔۔

اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں ہاتھ لگانے کی۔۔۔اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے اتنی اجازت دینے کی۔۔۔؟؟

میر دلاور اس کے بال پیچھے سے تھامتے اس کا چہرہ جھٹکے سے اونچا کرتے دھاڑا۔

وہ بھائی جیسا ہے میرے۔۔میر۔۔۔۔۔🤧

میں تب بھی کسی کو اتنی اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔اگلی بار دھیان دینا نہیں تو اس کے بعد تمہاری بھی ٹانگیں توڑ دوں گا میں۔۔۔۔وہ شدت پسندی سے بولا۔

حور نے اس سے دور ہونا چاہا ۔۔۔۔۔

کل تفصیلاً ملاقات ہو گی تم سے۔۔۔۔۔اسے پیچھے کی طرف دھکا دیتے کہا تو وہ واپس بیڈ پر گری۔

کل اس کی رخصتی تھی۔۔۔۔فنکشن زیادہ بڑا نہ تھا۔۔۔۔۔اس کے بعد اس کا ارادہ اسے اپنے فلیٹ ساتھ لے جانے کا تھا۔

اس کے جانے کے بعد حور نے دوپٹہ کھینچ کر گلے سے اتار کر دور پھینکا۔ 

آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔میر۔۔۔۔🎀✨

یہ جان لو حوریہ میر دلاور کہ میر دلاور رضوان تمہیں اس کی بھی اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔!!!وہ جو واپس اس کا بخار چیک کرنے آیا تھا یہ جملہ سنتے وہی سے دھاڑا اور دروازہ بند کرتا چلا گیا۔

Must read and give feedback ,

click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.

Click Here To Download Link

Complete Download Link

Post a Comment

0 Comments