میں۔۔ یہ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔! آہان کی سنجیدہ آواز پے ابتسام اور ابرش نے ایک ساتھ آہان کو حیرت سے دیکھا۔
جبکہ ہانیہ کا غصہ سے برا حال تھا۔ دلہن کےروپ میں وہ اس وقت جوالہ مکھی بنی ہوٸ تھی۔
آپ۔۔۔؟؟ لیکن۔۔؟ ابتسام کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ کہ کیا کرے۔ حالات اس کے اختیار سے باہر ہوچکے تھے۔ انکی اپنی بیٹی نے انکو اتنا بڑا دھوکا دیا تھا۔ کہ وہ ٹوٹ گۓ تھے۔ ایسے حالات میں جب سارے مہمان گھر میں اکھٹے ہوۓ تھے۔ انہیں اپنی عزت کو محفوظ کرنا تھا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ آپ دونوں کا نکاح ہوگا۔ ابھی اسی وقت۔
ایک فیصلے پے پہنچ کےابتسام نے سخت الفاظ میں کہا۔ تو ہانیہ نے نفی میں سر ہلایا۔
ہرگز نہیں۔۔۔!ڈیڈ۔۔ میں یہ نکاح۔۔۔؟؟
ابرش۔۔۔!ان سے کہہ دیں۔ جو انہوں نے کرنا تھا کر لیا۔ مزید کوٸ تماشا نہیں ۔۔۔ ابتسام علی پیرزادہ عزت کے لیے جان دے بھی سکتا ہے۔ اور لے بھی سکتا ہے۔
انتہاٸ غصہ کے عالم میں ابتسام کہتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گۓ ۔
مما۔۔۔! ڈیڈ کوسمجھاٸیں۔ میں نہیں کروں گی اس سے نکاح۔۔ کبھی نہیں کروں گی۔
ہٹ دھرمی اور خود سری والے انداز میں کہتی وہ ابرش کو اس وقت سخت طیش دلا گٸ تھی۔
کہ اسکا ہاتھ اٹھ گیا۔ پانچ انگلیوں کا نشان اسکے گال پے چھوڑ گیا۔
گال پے ہاتھ رکھے وہ اپنی ماں کو حیرت سے دیکھنے لگی۔
آج تک کبھی اسکی مما نے اس سے سخت یا اونچی آواز میں اس سے بات تک نہ کی تھی آج انہوں نے اس پے ہاتھ اٹھایا تھا۔
کاش۔۔۔ یہ تھپڑ آپ وک بہت پہلے مارا ہوتا۔۔۔ تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
ابرش کی نم آنکھوں میں دیکھتے ہانیہ کا سر جھکا تھا۔ کس ضبط کا وہ مظاہرہ کر رہی تھیں۔ یہ وہی جانتی تھیں۔
ابر نے ایک نظر خاموش کھڑے آہان کی جانب دیکھا۔
کچھ ہی دیر میں آپ کا نکاح ہوگا۔ آہان کے ساتھ۔
اس لیے اب۔۔۔ کوٸ بات نہیں۔۔ کوٸ ارگیو نہیں۔۔ انگلی اٹھا کے وارن کرتی وہ باہر نکل گٸیں۔
کمرے میں اب صرف وہ دونوں ہی رہ گۓ تھے۔
آہان کے چہرے پے ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ دھیرے سے چلتا اس کے پاس آیا۔
کبھی کبھار انسان کسی دوسرے کے لیے گھڑا کھودتا ہے ۔ لیکن گر اس میں خود ہی جاتا ہے۔۔۔۔ جیسے تمہارے ساتھ ہوا۔۔۔!
یہ ۔۔۔نکاح۔۔۔ تمہیں ۔۔بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہان مرزا۔۔۔!
لال ہوتی آنکھوں سے ہانیہ اسے چیلنج کرنے سے باز نہ آٸ۔ اسکے سب کیے کراۓ پے پانی پھیرنےوالا ہی وہی تھا۔ اور ہانیہ اسے بخش دیتی۔۔۔؟ ناممکن۔
چیلنج کر رہی ہو۔۔؟؟ سینے پے ہاتھ باندھے بڑی فرصت سے اسے دیکھا۔
تمہارا جینا حرام نہ کر دیا تو میرا نام بھی ہانیہ ابتسام پیرزادہ نہیں ۔۔۔
تو پھر ۔۔۔ اب اپنا نام بدل کے۔۔۔ ہانیہ آہان مرزا رکھ لو۔۔۔ کیونکہ میں تو اس نکاح کو آخری سانس تک نبھاٶں گا۔ آنکھوں کے رستے اسے نگلنے والےانداز سے دیکھتے مضبوط لہجے میں کہتا وہ اس لمحے ہانیہ کو انگاروں پے گھسیٹ گی تھا۔
Novel Name : Mera Haq e Warasat
Writer Name :Muntaha Chohan
Category :Complete Novel,After Marrige Based,Force Marriage Based Novel,Joint Family System Based Novel,Multiple Couples Based Novel, Haveli Based Novel, Cousin Based Novel,
Must read and give feedback ,
click the link below to download free online novels pdf or free online reading this novel.
Click Here To Download Link;
Complete Download Link
0 Comments