Only Novels Lover PDF
باہر برستی ہوئی تیز بارش اب
بہت ہلکی ہوچکی تھی ۔۔
ایسے میں سیاہ رنگ کے بڑے سے صوفے پر خاموش سی زینب بیٹھی ہوئی تھی ۔۔
سوچوں کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ وہ اس دائرے میں خود کہیں کھو سی گئی تھی ۔۔
شیشے کا گلاس ڈور جس کے اوپر پانی کی بوند ے باریک نقطوں کی صورت میں بکھری ہوئی تھی کچھ بوندو کا پانی گلاس ڈور سے لڑک کر سیدھی لکیر کی صورت میں بہہ رہا تھا ۔۔
بارش کے شفاف پانی میں ماضی کی بہت ساری یادیں بکھر گئی تھی ۔۔
زینب نے ایک لمبی گیلی سانس اندر کھینچیں ۔۔
تم انگور کھاؤ گے عمر ۔۔۔۔تم مجھے کھلاؤں گی ۔۔۔؟؟؟عمر نے الٹا اس سے سوال پوچھا۔۔۔
ہاں میں تمہیں کھلاؤں گی
تم بیمار ہو نا اس لیے ۔۔
زینب نے رنگوں سے بھری پلیٹ میں ہاتھ ڈالا اور انگور کے دانے بیمار سے عمر کو کھلانے لگی ۔۔
ایک دو دانے اس نے بڑی تمیز سے کھائے تھے ۔۔مگر چوتھے دانے پے عمر نے زینب کی انگلی پر زور سےکاٹا تھا ۔
اہ عمر ۔۔۔۔۔
انگلی ابھی تک عمر کے منہ میں تھی ۔۔۔
عمر وہ ایک بار پھر چلائی۔۔۔
اس بار عمر نے ہنستے ہوئے اس کی انگلی چھوڑ دی ۔۔۔
جاؤ اب میں تمہیں نہیں کھلاؤں گی ۔۔
زینب نے اپنی انگلی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
اوکے ۔آئی ایم سوری عمر نے ہنستے ہوئے نرمی سے اسکا ہاتھ تھاما ۔۔۔
اب نہیں کروں گا اس میں جیسے معذرت کی ۔۔
زینب نے اسے گھورا ۔۔ میں پھر بھی تمہیں نہیں کھلاؤں گی ۔زینب نے اپنا فیصلہ سنایا ۔۔۔
عمر نے اسے افسوس سے دیکھا ۔۔میں بیمار ہوں وہ اداکاری سے بولا ۔۔
تم مجھے بلیک میل کر رہے ہو ۔۔ہاں بالکل ۔۔ذرا بیمار سے لیٹے ہوئے عمر نے کہا ۔۔۔
میں تمہاری بلیک میلنگ میں نہیں آنے والی بھول جاؤں ۔وہ مزے سے اپنے انگور کھانے لگی ۔۔۔
_________________________
گیلے گلاس ڈور کو دیکھتی ہوئی زینب نے زور سے آنکھیں بند کیں ۔۔تکلیف دہ ماضی کی یہ تمام تکلیف دہ یادیں اسے ساری زندگی ستانی تھی ۔۔وہ وہیں خامو شی سے گم سم بیٹھی ہوئی شیشے کے گلاس ڈور کو گھور رہی تھی ۔۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب جعفر سلطان اس کے برابر آ کر بیٹھ چکا تھا ذرا مغرور ہینڈسم بھرے جسم والا اونچا سا ۔۔
جعفر سلطان نے اس کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں گیلی تھی ۔۔زینب بالوں کا جوڑا بناۓ خاموشی سے ٹانگیں اوپر کرے بیٹھی رہی ۔۔
کیا میں تمہارے بال کھول دو ۔اس کی بھاری آواز پر زینب نے گردن موڑ کر جعفر کو دیکھا ۔وہ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
نہیں۔۔
زینب کی آواز بہت آہستہ تھی ۔اور جواب بے حد مختصر صرف ایک لفظ ۔۔
مجھے تمہارے کھلے ہوئے بال اچھے لگتے ہیں ۔ جعفر نے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر سے کہا ۔۔
مجھے یہ بندھے ہوئے پسند ہے جعفر ۔۔
عمر کو تو تمہارے بال کھلے پسند تھے۔ اور وہ تمھارے بال کھول دیتا تھا ۔۔زینب نے گردن موڑ کر جعفر کو دیکھا اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی ۔
آپ مجھ سے عمر کی باتیں مت کیا کریں ۔۔
کیوں ۔۔
جعفر نے مختصر سوال کیا ۔۔
مجھے تکلیف ہوتی ہے ان باتوں سے ۔۔۔اور جو تم اتنا عرصہ مجھ سے عمر کی باتیں کرتی رہی اس کا کیا تمہیں کیا لگتا ہے مجھے تکلیف نہیں ہوتی ۔۔میں عمر کو کبھی نہیں بھول سکتی جعفر ۔زینب نے جیسے بہت افسوس سے کہا ۔لیکن تم کوشش تو کر سکتی ہو ۔۔۔
نہیں۔۔۔
میں کوششں بھی نہیں کر سکتی میں کوشش کرنا ہی نہیں چاہتی کیونکہ میں جانتی ہوں اس کا کوئی نتیجہ نہیں ۔۔
پتا نہیں کیوں آج عمر مجھے بہت زیادہ یاد آ رہا ہے جعفر ۔۔
صبح سے دوپہر دوپہر سے شام اور شام سے رات میں صرف عمر کا ہی سوچتی ہوں میری زندگی عمر سے شروع ہو کر عمر پر ختم ہے ۔۔
جعفر نے جیسے تھک کر صوفے سے ٹیک لگا یا وہ اس کی ان باتوں کا عادی ہونے لگا تھا ۔۔
اسی دوران جعفر کا موبائل بجنا شروع ہوا ۔زینب خاموش بیٹھی رہی ۔۔جعفر نے موبائل کان سے لگایا اور اٹھ کھڑا ہوا ساتھ ساتھ جعفر نے شیشے کے گلاس ڈور پر لگے پردے کو برابر کیا جسے زینب دیکھ کر رو رہی تھی ۔۔۔
زینب ۔۔اسے اپنے پیچھے سے عمر کی آواز سنائی دی اس نے تیزی سے گردن موڑی وہ بالکل اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔۔زینب تیزی سے صوفے سے اتری ۔۔جعفر فون پر بات کرنے میں مصروف تھا ۔۔عمر کمرے سے باہر کی طرف بھاگا تھا ۔۔
زینب مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑی ۔۔۔
عمر ۔۔۔ پلیز میری بات سنو ۔۔
زینب اس کے پیچھے دوڑ رہی تھی ۔۔
میرے پیچھے اؤ زینب عمر مسکراتے ہوئے اسے کہہ رہا تھا ۔رکوں تو عمر میری بات سنو مجھ سے مت بھاگو مجھے تمہیں بہت کچھ بتانا ہے بہت ساری باتیں کرنی ہیں ۔۔رکوں تو عمر ۔۔وہ اس کے پیچھے دوڑتی چلی گئی یہاں تک کہ گھر کے پچھلے حصے میں آ گئی ۔جہاں بڑا سا سوئمنگ پول تھا ۔عمر اس کی منڈیر کے پاس جا کر کھڑا ہوا ۔۔
عمر میری بات تو سنو یہاں آؤ میرے پاس ۔وہ جیسے ا سے پکارتے پکارتے تھک سی گئی تھی ۔۔
اگلے ہی لمحے عمر ا سے پانی میں ڈوبتا ہوا نظر آیا ۔۔
عمر ۔۔
وہ تیزی سے سوئمنگ پول کی طرف دوڑی زینب زور زور سے چلا رہی تھی عمر کو پکار رہی تھی ۔۔کال پے بات کرتا ہوا جعفر تیزی سے کمرے سے باہر کو بھاگا ۔۔
عمر کو نکالو کوئی ۔۔عمر کو تیرنا نہیں آتا ۔۔عمر کو بچاؤ کوئی اسے کچھ ہو جائے گا عمر وہ تیزی سے سوئمنگ پول میں عمر کو بچانے کے لئے کودی جبکہ زینب کو خود تیرنا نہیں آتا تھا۔۔۔
جعفر تیزی سے سیڑھیاں پھیلا نگتا ہوا گھر کے دوسرے حصے کی طرف آیا جہاں سے زینب کے چلانے کی آواز آ رہی تھی ۔۔مگراب زینب کے چلانے کی آواز آنا بند ہو گئی تھی ۔۔
زینب پانی میں تیزی سے اپنے ہاتھ مار رہی تھی جیسے خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہوسوئمنگ پول کا پانی اس کے قد سے کافی اونچا تھا۔۔ زینب جعفر تیزی سے پانی کے اندر کودا۔۔
اسے پانی سے نکالنے کے بعد وہ اب اسے فرش پر لیٹا رہا تھا۔۔ زینب بری طرح سے کھانسنے لگی ۔کچھ دیر بعد جب وہ نورمل ہوئی تو اس نے ایک بار پھر سے عمر عمر چلانا شروع کیا ۔۔
جعفر میرے عمر کو تیرنا نہیں آتا وہ یہاں پانی میں گرا تھا میرے سامنے اس سے بچاؤ جعفر ۔۔
وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔
آپ عمر کو بچا لے جا کر ورنا اسے کچھ ہو جائے گا وہ زیادہ تیز تیز بول رہی تھی ۔۔۔
زینب بالکل چپ ہو جاؤ بالکل چپ یہاں کوئی بھی نہیں ہے ۔۔یہاں صرف تم اور میں ہوں ۔
کوئی عمر نہیں ہے یہاں پر سنا تم نے کوئی عمر نہیں ہے۔۔
جعفر بہت زور سے دھاڑا تھا ۔ اتنی زور سے کہ وہ ا سے بے یقینی سے دیکھنے لگی اس کی آنکھوں میں سختی اور چہرے پر سنجیدگی تھی ۔۔۔
Novel Name : Juda Huay Kuch Is Tarah
Complete Download Link
0 Comments